کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 6
ایک حدیث پڑھی کہ ’’اگر آدمی اپنے سامنے کوئی غلط کام دیکھے اور پھر اس پر خاموش رہے تو وہ گونگا شیطان ہے۔‘‘ چوک دالگراں ، لاہور میں ہمارے بزرگوں کی ایک بڑی مسجد ہے ،جہاں میری جوانی کے ابتدائی سال گزرے۔ وہاں جب کوئی خطیب خطبہ دیتا اور بسا اوقات میری نظر میں کوئی بات مرجوح ہوتی خصوصا اکثر خطیب عموماً مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں تو ایسے موقع پر خطبۂ جمعہ کے بعد میں اس حدیث کے تحت خطیب کی غلطی یا مبالغہ آرائی کی وضاحت ضروری سمجھتا، لیکن وہاں بزرگ علما کی موجودگی میں یہ طریقہ مجھے خود کوئی اچھا نہ لگتا ۔ میں نے اس ذہنی الجھن اور کشمکش کا ذکر اپنے تایا اور استاذ گرامی حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ خطیب جب جوشِ خطابت میں کوئی بات کرتا ہے تو اس سے مبالغہ ہوہی جاتاہے، لیکن اس سے اس کا مقصد غلط نہیں ہوتا۔اگر اجتہادی امور میں شریعت کو اس طرح تنگ کردیا جائے تو پھر تو شریعت کی پیروی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر ایسا مسئلہ جس میں دو آرا ہوں ، اس میں شدت کا رویہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہے ، لہٰذا وہ حدیث یہاں لاگو نہیں ہوتی۔ اس کے بعد میری سوچ و فکر میں ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی اور اجتہادی مسائل میں میرا رویہ خاصاسلجھ گیا۔ پینتیس چالیس سال قبل کے مناظرانہ ماحول میں ، جب کہ میں خود بھی اس وقت اسی ماحول کا حصہ تھا، مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ مناظرہ بازی میں افہام و تفہیم کے بجائے اصل مقصد مدمقابل کو شکست دیناہوتاہے، جس کے نتیجے میں مجھے مناظروں سے نفرت پیدا ہوگئی ۔واقعی اسلام عناد وتعصب کو قطعاً پسند نہیں کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : (( إن ﷲ یحب الرفق)) (صحیح بخاری:۶۹۲۷) ’’اللہ تو نرمی کو پسند کرتا ہے۔‘‘ اور نرمی کا مفہوم امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفاظ میں بیان کیاہے: ’’الرفق ھو لین الجانب بالقول والفعل والأخذ بالأسہل وھو ضد العنف‘‘ (فتح الباری:۱۰/۴۴۹) ’’ آدمی قول وکرداراور ہر معاملہ میں آسان ترپہلو اختیار کرے اور اس کے مقابل لفظ