کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 5
رقعہ ہے ،وہ رقعہ برآمد کرنا ہے۔ دونوں صحابی گھوڑوں پر سوار ہوکر وہاں پہنچے۔ عورت کو روک لیا اور اسے رقعہ نکالنے کا کہا۔ اس نے انکار کیا اور تلاشی کے باوجود رقعہ برآمد نہ ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دھمکی دی۔جس سے مرعوب ہوکر اس نے بالوں کی چوٹی سے رقعہ نکال کر دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتماع میں وہ رقعہ پڑھا گیا، جس میں اہل مکہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروگرام کی اطلاع دی گئی تھی جس کے نیچے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا نام تھا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ شدید غصہ میں آگئے اور دربار ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا سرقلم کرنے کی اجازت طلب کی۔ معاملہ واقعی سنگین تھا۔ اسلامی حکومت کی جاسوسی کی سزا بڑی سخت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: بتاؤ !کیا معاملہ ہے؟ حاطب نے تمام صورتِ حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کردی اور بتایا کہ میرا مقصد صرف اپنے رشتہ داروں کو اہل مکہ کے شر سے بچانا تھا، باقی میں ایمان کی حالت پرقائم ہوں ۔ ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کو قتل کرنے پر مصر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے عمر رضی اللہ عنہ ! حاطب غزوہ بدر میں شریک ہوچکا ہے، لہٰذا ان سے نرمی کا سلوک ہونا چاہئے۔‘‘ (( لعل ﷲ عزّوجلّ اطلع علی أھل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فإني قد غفرت لکم)) (صحیح بخاری:۴۸۹۰) ’’توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بدریوں کو جھانک کر کہہ دیا ہو،جو چاہور کرو! میں نے تمہارا سب کچھ کیا کرایا معاف کر دیا۔‘‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ اگر کوئی شخص غلطی کرے اور اس کی غلطی تاویل کی بنیاد پر اجتہادی ہو تو اس کے ساتھ ایک مرتد کا سا سلوک نہیں کیاجائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فکری تربیت اس نہج پر کی کہ اجتہادی معاملات میں اختلاف اگر اخلاص پر مبنی ہوتا تو وہ ا س میں کبھی سخت رویہ اختیار نہ کرتے اور دوسرے کی غلطی کو برداشت کرتے لہٰذا ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی فکر کو اس نہج پر استوار کر نے کی کوشش کرے۔ مشہور علمی مقولہ ہے: ’’الاجتہاد لا یُنقَض بالاجتہاد‘‘ ’’ایک اجتہاد دوسرے اجتہاد کو توڑتا نہیں ہے۔‘‘ اس نہج پر میری تربیت میں ایک واقعہ نے اہم کردار ادا کیا۔میں نے دور ِطالب علمی میں