کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 41
معنی یہ ہیں کہ مزدور کے ہاتھ کے بدلہ بادشاہ کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ جب شہنشاہ مراد نے قرآن کی یہ آیت سنی تو خدا کے حکم کے سامنے سرجھکا دیا اور اپنا ہاتھ آستین سے باہرنکال کر، قطع کردینے کے لئے پیش کردیا۔‘‘[1] لیکن آج ’مفکر قرآن‘ کے نزدیک’ قصاص‘ کسی سزا کا نام ہے ہی نہیں ۔ چوتھااختلاف بسلسلۂ قوامیت ِمرداں و قنوت ِ نسواں قرآن کریم نے گھریلو زندگی میں صراحت کے ساتھ مردوں کو قوّام بنایا ہے اور خواتین کو قنوت کے مقام پر رکھا ہے۔ قنوت کا معنی و مفہوم ’اطاعت و فرماں برداری‘ ہے۔ ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ اس معنی کو تو مانتے ہیں ، مگر وہ عورتوں کو شوہروں کا مطیع و فرماں بردار تسلیم کرنے کی بجائے مفہومِ آیت یہ بیان کرتے ہیں کہ مرد اور خواتین سب کے سب اللہ ہی کے مطیع و فرماں بردار ہیں ۔ حالانکہ یہ معنی صرف وہاں مراد لیا جاسکتا ہے جہاں اطاعت و فرماں برداری کے اللہ (یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لئے مخصوص ہونے کا قرینہ موجود ہو لیکن جہاں یہ لفظ (قنوت) شوہروں کے قرینہ کے ساتھ عائلی زندگی سے متعلقہ ہدایات کے حوالہ سے مذکور ہو، وہاں اسے شوہروں کی اطاعت و فرماں برداری کے مفہوم میں نہ لینا، ایک بے جا بات ہے اور قرآن کی محولہ بالا آیت (سورۃ النساء:۲۴) میں چونکہ مردوں کی قوامیت کے مقابلہ میں عورتوں کے قنوت کا ذکر ہے، اور اس سے بھی آگے بڑھ کر قطعی دلیل یہ ہے کہ اسی آیت کے آخر میں یہ کہا گیا ہے کہ ﴿فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ ۔ ۔ ۔﴾ یعنی اگر یہ بیویاں ، تمہاری اطاعت پر اُتر آئیں (اور اپنی نُشوز [نافرمانی]کی روش ترک کردیں ) تو پھر ان پر زیادتی کرنے کی راہیں نہ ڈھونڈو اور پھر شوہروں کے لئے یہ اطاعت بھی، حکم خدا ہی پر موقوف ہے۔ اس لئے بیویوں کا اپنے شوہروں کے سامنے مطیع و فرماں بردار ہونا ایک قطعی قرآنی امر ہے اور اطاعت و فرماں برداری کا کمال یہ ہے کہ خواتین کی پسند و ناپسند ان کے شوہروں کی پسند و ناپسندمیں ڈھل جائے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ٹھیک اسی اعلیٰ درجے کی اطاعت و فرماں برداری کے قائل ہیں ۔ وہ خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جملہ خواتین ِاسلام کے لئے اُسوۂ کاملہ قرار دیتے ہوئے اُنہیں یوں خراجِ عقیدت پیش فرماتے ہیں :
[1] طلوع اسلام، جنوری ۱۹۵۷ء، ص۲۹