کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 39
چلی جارہی ہے جس پر کبھی کوئی پہلی بھیڑ چلی تھی۔‘‘
مرگ ِپرویز کے بعد وابستگانِ طلوع اسلام کے ذمہ ان سوالات کا جواب دینا لازم ٹھہرتا ہے، کیونکہ وہ فکر ِاقبال کے شارح اور وارث ہونے کے دعویدار ہیں ۔
تیسرا اختلاف مفہوم ’قصاص‘ میں
اسلامی تعزیرات و عقوبات میں ایک کثیر الاستعمال لفظ ’قصاص‘ ہے، اس کا مفہوم کیا ہے؟ اس میں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور پرویز صاحب باہم برسراختلاف ہیں ۔ پرویز صاحب نے دورِ جدید میں اسلام کا جو ترقی یافتہ مفہوم پیش کیا ہے، اس میں سزا کا کوئی تصور نہیں ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’یہ ہے کہ ملزم کا اسی طرح پیچھا کیا جائے کہ وہ مؤاخذہ سے بچ نہ سکے۔‘‘[1]
’’قصاص اس کے معنی سزا دینا نہیں بلکہ اس کے معنی ہیں ، مجرم کا اس طرح پیچھا کرنا کہ وہ بلا گرفت نہ رہ جائے، یعنی قرآنی نظام میں کسی جرم کو (Untraced)نہیں رہنا چاہئے۔ وہ اس قسم کے محکم نظامِ تفتیش میں حیاتِ اجتماعیہ کا راز بتاتا ہے:
﴿ وَلَکُمْ فِي الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰا أولِي الاَْلْبَابِ﴾ (۱۷۸/۲)[2]
قصاص ’سزا‘ نہیں ہے بلکہ یہ ’محکم نظامِ تفتیش‘ اور ’تعاقب ِمجرم‘ کا نام ہے، اگر مجرم بھاگ کر ملکی سرحدوں سے باہر نکل جائے اور پولیس نے ملکی حدود کی حد تک اس کا ’تعاقب‘ کرلیا تو بس یہی ’تعاقب‘ قصاص ہے اور اسی ’تعاقب ِمجرم‘ میں ’حیاتِ اجتماعیہ کا راز‘ ہے۔
لیکن علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قصاص کا مفہوم وہی ہے جسے علماے تفسیر،ماہرین حدیث، فقہاے اسلام،اصحابِ تاریخ و سیر اور ائمہ لغت ہمیشہ سے تسلیم کرتے چلے آرہے ہیں ، یعنی یہ کہ
’’(القصاص) أن یوقع علی الجانی مثل ما جنی: النفس بالنفس والجرح بالجرح‘‘[3]
’’قصاص یہ ہے کہ مجرم پر وہی اور اتنی ہی چیز کو واقع کیا جائے جیسی اور جتنی اس کی جنایت تھی، جان کے بدلہ جان اور زخم کے بدلہ زخم۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ قصاص کا معنی ’محکم نظامِ تفتیش‘ نہیں ہے بلکہ یہ سزا ہی کا نام ہے جو مجرم
[1] طلوع اسلام، فروری ۱۹۸۱ء، ص۶
[2] تفسیر مطالب الفرقان، ج۳، ص۱۷۴
[3] المعجم الوسیط، ج۲، ص۷۴۰