کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 36
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی منکر ِ حدیث اور منکر ِ سنت تھے۔
اگرچہ منکرین حدیث کے اس جھوٹ کا پول طلوعِ اسلام ہی کے اقتباسات کی روشنی میں ماہنامہ محدث میں پہلے ہی کھولا جاچکا ہے، لیکن پھر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ طلوعِ اسلام ہی کی فائل سے دو اور اقتباسات بھی پیش کردیے جائیں :
1. کسی اعلیٰ قوم یا بہترین جماعت کے لئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ جن امتیازات کو ضروری گردانتے ہیں ، ان میں سے ایک امتیازیہ بھی ہے کہ وہ ’’قرآن کے ساتھ ساتھ سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما قرار دے۔‘‘ چنانچہ بقول طلوعِ اسلام:
’’اعلیٰ جماعت یا قوم کے لئے، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے آٹھ خصائص کو بنیادی شرط قرار دیا ہے، اوّل: توحید پرستی۔ دوم: نبوت و رسالت پر ایمان۔ سوم: کتاب و سنت کی رہنمائی۔ چہارم: مرکزیت۔ پنجم:نصب العین ملّی۔ ششم : غلبہ و استیلاء یاقوت ِتسخیر۔ ہفتم:اجتماعی خودی۔ ہشتم :حفظ و احترامِ اُمومت۔[1]
اس کے بعد ان کے بکثرت اشعار میں سے صرف ایک شعر پیش کیا جاتا ہے جس میں وہ ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں :
2. علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ِتمسک بالحدیث اُن کے مندرجہ ذیل شعر سے واضح ہے :
زندگی از دہر و دہر از زندگی است
لا تسبوا الدھر فرمانِ نبی است[2]
’’زندگی زمان ہے اور زمان زندگی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ زمانے کو بُرا مت کہو۔‘‘[3]
اس شعرمیں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی وابستگی حدیث نے پرویز صاحب کو جس قلبی تضیق سے دوچار کیا ، اس کے زیراثر وہ لکھتے ہیں :
’’یہ حدیث بھی بتا رہی ہے کہ یہ اس زمانے میں وضع ہوئی جب مسلمانوں میں اس قسم کے تصوف آمیز فلسفہ کی بحثیں شروع ہوگئیں ۔‘‘[4]
[1] طلوع اسلام، اپریل ۱۹۵۰ء، ص۳۱
[2] اسرار و رموز (مع ترجمہ میاں محمد شفیع) ص۱۷۰
[3] اسرار و رموز (مع ترجمہ میاں محمد شفیع) ص۱۷۱
[4] طلوع اسلام، مئی ۱۹۵۷ء، ص۴۰