کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 35
کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے، لیکن ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی انتہا ہے کہ نظریات کے اس قدر بعد و اختلاف کے باوجود بڑی بلند آہنگی سے یہ ڈھول پیٹا جاتا ہے کہ انکارِ حدیث میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور پرویز ہم مسلک تھے۔ جس طرح قرآنِ مجید نے یہودو نصاریٰ کے جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھولی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ مسلک ِابراہیم علیہ السلام اور مذہب ِاہل کتاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اسی طرح آج وقت کا یہ تقاضا ہے کہ پرویز صاحب (اور طلوعِ اسلام) کے ایسے ہی باطل دعاوی کی بھی قلعی کھولی جائے، اور یہ بات بے نقاب کردی جائے کہ مذہب ِپرویز اور مسلک ِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ میں مشرق و مغرب کا سا بعد پایا جاتا ہے۔
مندرجہ ذیل چند اختلافی اُمور بطورِ نمونہ مشتے از خروارے، نذرِ قارئین ہیں :
پہلااختلاف بسلسلۂ حجیت ِحدیث
حجیت ِحدیث کے بارے میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور پرویزدونوں کا موقف ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔ پرویز صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ بھی اُن کی ہی طرح یکے از منکرین حدیث تھے، چنانچہ طلوعِ اسلام اپنے ہی خیالات کی دنیا میں گھوم پھر کر جن اشخاص پر ’انکارِ حدیث‘ کا لیبل چپکاتا ہے، ان میں ایک علامہ اقبال بھی ہیں ۔ ’’تین بڑے بڑے منکرین حدیث‘‘ کے زیر عنوان طلوعِ اسلام نے (نومبر ۱۹۵۲ء میں ، صفحہ ۶۲ پر) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اس مسلک کا حامل قرار دیا ہے اور ابھی حال ہی کے ایک شمارہ میں ، پھر اسی دعویٰ کو بایں الفاظ دہرایا گیا ہے:
’’اگر انصاف پسندی کوئی اُصول ہے تو ہم اِن ناقدان پرویز سے التماس کریں گے کہ یا تو وہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو بھی منکرین ِحدیث میں شمار کریں ، کیونکہ ان کے موقف ِحدیث اور علامہ پرویز کے موقف ِحدیث میں سرمو فرق نہیں ہے اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو کم از کم اُنہیں اپنے تضادِ فکر و نظر پر کچھ تو ندامت محسوس کرنی چاہئے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ سچائی کی تو کوئی حد ہوتی ہے جس سے آگے کوئی راست باز شخص تجاوز نہیں کرسکتا، لیکن جھوٹ کی تو کوئی حد ہی نہیں ہوتی جہاں پہنچ کر کوئی کاذب و مفتری رُک جائے۔ منکرین حدیث کے چند نمایاں اکاذیب و اباطیل میں سے ایک واضح جھوٹ یہ ہے کہ