کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 34
اِسی مسلک کے علمبردار تھے : ﴿ أَمْ تَقُوْلُوْنَ إنَّ إِبْرَاھِیْمَ وَإِسْمٰعِیْلَ وَإِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالأَسْبَاطَ کَانُوْا ھُوْدًا أَوْ نَصَارٰی﴾ (البقرۃ:۱۴۰) ’’کیا تم یہ کہتے ہو کہ ابراہیم، علیہ السلام اسمٰعیل علیہ السلام ، اسحق، علیہ السلام یعقوب علیہ السلام اور انکے افرادِ نسل یہودی یا عیسائی تھے؟‘‘ اور پھر قرآن مجید کو ان کے مختلف افکار و نظریات کی متفرق مقامات پر تردید کرنا پڑی، کبھی یہ کہہ کر﴿أَ أَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ ﷲُ﴾’’کیا تم اللہ سے بڑھ کر حقیقت ِحال کو جانتے ہو؟‘‘ اور کبھی یہ کہہ کر کہ ان سب کا عمر بھر کا دین اسلام تھا یہاں تک کہ جب ان پر موت آئی تو ان کے اپنے اعتراف کے مطابق وہ مسلم یکسو تھے اور صرف اور صرف ایک اللہ ہی کے پرستار و فرمانبردار تھے (سورۃ البقرۃ:۱۳۳) اور چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہود و نصاریٰ، بلکہ مشرکین مکہ تک کے بزرگ پیشوا اور مورّثِ اعلیٰ تھے، اس لئے اِن کا خاص طور پر نام لے کر یہ کہا گیا کہ وہ نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی یا مشرک تھے، بلکہ سیدھے سادے مسلم حنیف تھے۔ رہی تمہاری یہودیت اور نصرانیت تو مذہب کے یہ تمام کھوٹے سکے ان کے صدیوں بعد کی پیداوار ہیں : ﴿ یٰأَھْلَ الْکِتَابِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِيْ إِبْرَاھِیْمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاۃُ وَالإِنْجِیْلُ إلَّا مِنْ بَعْدِہِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ٭ مَا کَاَن إِبْرَاھِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَّمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ (آلِ عمران:۶۷) ’’اے اہل کتاب! تم ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو، جب کہ تورات و انجیل اُتاری ہی ان کے بعد گئی ہیں ، پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ ابراہیم علیہ السلام ، نہ تو یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی بلکہ وہ تو (صرف اللہ کی طرف رُخ کرنے والے) مسلم یکسو تھے، اور وہ مشرکوں میں سے بھی نہ تھے۔‘‘ الغرض جس طرح یہود و نصاریٰ کی یہ عادت تھی کہ اپنے افکارِ فاسدہ کے کھوٹے سکوں کو چلانے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی قابلِاحترام اور معتمد علیہ ہستیوں کا نام استعمال کیا کرتے تھے، بالکل اِسی طرح ہمارے دور میں غلام احمد پرویز نے اپنے باطل نظریات کو مقبولِ عام بنانے کے لئے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نام خوب استعمال کیا ہے، حالانکہ پرویز اور اقبال رحمۃ اللہ علیہ