کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 33
افکارِمعاصرین پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی
’مفکر ِقرآن‘ بمقابلہ ’مصورِ قرآن‘
ہر جعل ساز کو یہ علم ہے کہ اس کے کھوٹے سکے صرف اُسی وقت قابل قبول ہوں گے، جب اُنہیں اصلی اور کھرے سکوں کے رُوپ میں پیش کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر ابلیس، اپنے فساد کو اِصلاح کے لباس میں ، اور ہر شیطان اپنے جھوٹ کو سچ کے بھیس میں پیش کرنے پر مجبور ہے اور اِس کے ساتھ ہی یہ ابالیس و شیاطین یہ پراپیگنڈا بھی شروع کردیتے ہیں کہ افکار ونظریات کے یہ سکے فلاں فلاں قابل ِاحترام بزرگوں کے ہاں مقبول و مسلّم رہے ہیں ۔
یہودیوں نے اپنے دورِ ماضی میں جب کتاب اللہ کو پس ِپشت ڈال کر سحر و ساحری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو اس کفریہ علم کے کھوٹے سکوں کو عوام الناس میں مقبول بنانے کے لئے یہ ڈھنڈورا پیٹنا بھی ضروری سمجھا کہ یہ تو وہ برگزیدہ علم ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھی تھا، بلکہ ان کی بے مثال حکومت اِسی ’شاندار علم‘ کے باعث قائم تھی اور پھر قرآن کو یہ کہہ کر یہودیوں کی تردید کرنا پڑی :
﴿وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلـٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ﴾ (البقرۃ:۱۰۲)
’’ اور سلیمان نے ارتکابِ کفر نہیں کیا، لیکن شیطانوں نے یہ کفر کیا تھا کہ وہ لوگوں کو سحر کی تعلیم دیا کرتے تھے۔‘‘
اہل کتاب نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے بعد جب دین اسلام کی جگہ ’یہودیت‘ اور ’عیسائیت‘ کو اپنا لیا اور اسلام کے حوالے سے خود کو مسلمان کہنے اور کہلوانے کی بجائے جب ’یہودی‘ اور’عیسائی‘ کہنے اور کہلوانے لگ گئے تو اپنے مذہب کے ان کھوٹے سکوں کو لوگوں میں پھیلانے کے لئے یہ منادی کرنا بھی شروع کردی کہ ہمارے بڑے بڑے بزرگ اور مورّثین وپیشوا ابراہیم علیہ السلام ، اسمٰعیل علیہ السلام ، اسحق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام اور ان کی آل اولاد اور اسباط و احفاد، سب کے سب