کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 32
’’ رسول اللہ کا ارشاد ہے : جس نے تعویذ لٹکایا ،اس نے شرک کیا۔‘‘
جواب:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کے الفاظ یوں ہیں :
قالت عائشۃ لیس التمیمۃ ما یعلق بعد نزول البلاء ولکن التمیمۃ ما علق قبل نزول البلاء لیدفع بہ مقادیر ﷲ (شرح السنہ: ۱۲/۱۵۸)
’’تمیمہ وہ (منع) نہیں جس کو آزمائش نازل ہونے کے بعد لٹکایا جائے لیکن وہ تمیمہ (منع) ہے جس کو بلا لاحق ہونے سے قبل لٹکایاجائے تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کی تقدیر کو ٹالے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ تقدیر کے ورود سے قبل اس کے دفاع کی تدبیرکرناعاقل کو لائق نہیں جبکہ ورودِ بلا کے بعد اس سے خلاصی کی تدبیر کرنا مشروع ہے، چاہے وہ تعویذ کے ذریعہ ہی ہو۔
تعویذ کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے: ایک جماعت اس کے جواز کی قائل ہے۔ جبکہ دوسری جماعت تعویذات کے عدم جواز کی قائل ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا شمار بھی ان لوگوں میں ہے جو تعویذوں کو جائز سمجھتے ہیں ۔میرے نزدیک احتیاط اس میں ہے کہ تعویذات سے مطلقاً پرہیز کیاجائے اورمذکورہ حدیث (( من علق تمیمۃ فقد أشرک))سے مراد جاہلی تمیمہ ہے جو خلاف شرع ہے اور اسکی تعریف یہ ہے کہ وہي خرزات کا نت العرب تعلقہا علی أولادھم یتقون بھا العین بزعمہم فأبطلھا الشرع (شرح السنہ :۱۲/۱۵۸)
’’یہ خرزات (گونگے سپیاں )ہیں جنہیں اہل عرب اپنے بچوں پر لٹکایاکرتے تھے اور اپنے زعم کے مطابق ان کو اس کے ذریعہ نظر بدسے بچاتے تھے۔ پس شرع نے اس کوباطل ٹھہرایا۔‘‘
جس طرح کہ مسنداحمد میں سبب ِحدیث میں اس امر کی طرف اشارہ ہے۔پھر مجوزین کے پیش نظر یہ حدیث بھی تھی، اس کے باوجود وہ جواز کے قائل ہیں ۔ اس سے بھی میرے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ تعویذ لکھنا شرک تو نہیں تاہم اس سے احتراز کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم
اس موضوع پر میری تفصیلی گفتگو الاعتصام میں چھپ چکی ہے اسکی طرف مراجعت بھی مفید ہے۔