کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 31
سالن اور کھانے میں خود تھوکا تو پھر کیا بطورِ علاج پانی میں تھوک کر یا اُنگلی کے ذریعہ تھوڑی سی تھوک ڈال کر کسی مریض کو پلانا سنت ہے یا بدعت ؟
جواب: برتن میں سانس لینا اس وقت منع ہے جب آدمی کوئی شے پی رہا ہو۔ مستدرک حاکم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
(( لا یتنفس أحدکم في الإناء إذا کان یشرب منہ)) (۴/۱۵۵)
’’جب کوئی شخص پانی پی رہا ہو تو برتن میں سانس نہ لے۔‘‘
جب کہ عام حالات میں پھونک مارنا منع نہیں جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانے وغیرہ میں لب مبارک ڈالنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ہو سکتا ہے۔ عامۃ الناس کو اس پرقیاس نہیں کیا جاسکتا۔ محدثین نے ایسے واقعات کو علاماتِ نبوت میں ذکر کیا ہے۔ ایسے ہی اُنگلی کو مٹی اور تھوک لگا کر تکلیف دہ جگہ پر لگانا بھی سنت سے ثابت ہے۔(متفق علیہ) جہاں تک تھوک کو پانی میں ڈال کر پلانے کا تعلق ہے تو یہ سنت سے ثابت نہیں ، ہاں البتہ پھونک کے ساتھ معمولی سا اثر رطوبت کا ہوتو یہ لفظ نفث کی تعریف میں شامل ہے جو منع نہیں تفصیل کے ملاحظہ ہو عون المعبود :۴/۱۲
البتہ آدمی کو دم کی صورت میں تھوکنے کا جواز ہے۔ سنن ابوداود میں ہے :
(( ویتفل حتی بریٔ)) (رقم:۳۴۱۸)
’’آپ اس کو تھتکارتے یہاں تک کہ وہ تندرست ہو گیا۔‘‘
اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے :(( ویجمع بزاقہ ویتفل)) (رقم:۵۷۲۶)
’’ آپ اپنی تھوک کو جمع کرتے اور اس کو تھتکارتے۔‘‘
کونسے تعویذ شرک ہیں ؟
سوال:سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :التمائم ما علق قبل نزول البلاء وما علق بعد نزول البلاء فلیس بتمیمۃ (بیہقی :۹/۳۵۰ اور مستدرک حاکم :۴/۲۱۷) تو کیا اس روایت سے قرآنی تعویذ لٹکانا ثابت ہوتا ہے یا ہر قسم کیتمائم شرک ہی ہیں :
قال صلی اللہ علیہ وسلم : (( من علق تمیمۃ فقد أشرک)) (مسند احمد:۴/۱۵۶)