کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 3
پڑے ہوئے تھے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف اپنی زبان سے لوگوں کو تعلیم دی تو اس کے ساتھ تربیت و اصلاح کیلئے ایک عملی کردار بھی پیش کیا۔گویا اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسان کی عملی اصلاح کے ساتھ ساتھ اس کے مزاج و فکر، جس پر انسانی رویے تشکیل پاتے ہیں ، کی تربیت کا بھی بھرپور انتظام کردیا، جس کی چھاپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں تو انتہائی نمایاں تھی کیونکہ صحبت کا اثر ایسا بھی ہوتا ہے جو انسانی مزاج پر غیر شعوری طور پر اپنے اثرات چھوڑتا ہے۔
بعد میں ایک طبقہ نے اسے ایک فن کے طور پر اختیار کرلیا اور تزکیۂ نفس کے مصنوعی طریقے ایجاد کئے جنہیں ’تصوف کے طریقے‘ کہا جاتاہے۔ لیکن پختہ فکر اور محتاط علما نے اس روش کو غلط قرار دیا اورواضح کیا کہ انسانی مزاج کی اصلاح و تربیت کے لئے تصوف کے ان مصنوعی طریقوں کی اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ شریعت کی تعلیمات اور اُسوۂ کامل ہر میدان میں کافی و وافی موجود ہیں ۔ انسانی مزاج اور نفسیات کی تربیت کے لئے شریعت کی تعلیمات اتنی اعلیٰ ہیں کہ ان پر عمل پیرا ہونے سے زندگی کے طور اطوار اور رویے ایک معتدل اور کامل انسان کے قالب میں ڈھل سکتے ہیں ۔
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کے ظاہری اعمال کے محاسبہ کاتذکرہ کیا ہے، وہاں یہ بھی بتایاہے کہ انسانی مزاج اور باطنی کیفیات کا بھی محاسبہ ہوگا،کیونکہ رویوں اور اعمال کے ظہور میں درحقیقت انسان کی باطنی کیفیات اور نفسیات ہی کارفرما ہوتی ہیں ۔ارشادِ الٰہی ہے :
﴿ لِلّٰہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْ أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوْہٗ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَائُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾ (البقرۃ:۲۸۴)
’’آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ،سب اللہ کا ہے۔ تم اپنی باطنی کیفیات ونفسیات کو چھپاؤ یااُنہیں (اعمال کی صورت) ظاہر کرو، اللہ بہر حال ان کا حساب تم سے لے گا۔ پھر اسے اختیار ہے جسے چاہے معاف کردے اور جسے چاہے سزا دے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘
ظاہری اعمال کے ساتھ باطنی کیفیت کی اصلاح و تربیت پر ا س لئے زور دیاکہ اگر انسانی