کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 29
مزنیہ سے نکاح جائز ہے تو اس کی ماں یا بیٹی سے بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔‘‘ طلاق کے بعض مسائل ٭ سوال :ایک طلاق دے کر اگر رجوع کرلیا جائے اور پھر ایک یا دو ماہ بعد دوبارہ طلاق دے دی جائے تو کیا پہلی طلاق بھی شمار ہوگی یا نہیں ؟ جواب:جس طلاق سے رجوع ہوچکا ہے، وہ بھی شمار ہوگی۔ ٭ سوال :کیا ایک وقت میں تین طلاق دے کر ۳۰ یوم کے اندر اندر بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے؟ جواب:ایک وقت کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’کان الطلاق علی عہد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وأبي بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ‘‘ (رقم:۱۴۷۲) ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ادوارمیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایک وقت میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھی۔‘‘ ایسی صورت میں عدت کے اندر صرف رجوع ہی کافی ہے، دوبارہ نکاح کی ضرو رت نہیں ، ہاں البتہ اگر عدت گزر جائے تو دوبارہ نکاح ضروری ہے۔ واضح ہوکہ جس عورت کو حیض آتا ہے، اس کی عدت تین حیض ہے۔ بصورتِ دیگر عدت تین ماہ ہے۔ ٭ سوال :کیا طلاق دیتے وقت بیوی کا نام لینا ضروری ہے۔ جواب: صرف نیت ہی کافی ہے بوقت ِضرورت نام بھی لیاجاسکتا ہے۔ (فتح الباری :۹/۳۵۶) ٭ سوال :کیا بالجبر طلاق لکھوانے سے طلاق مؤثر ہوگی یا نہیں ؟ جواب:زبردستی طلاق واقع نہیں ہوتی بشرطیکہ اِکراہ کی شرطیں پائی جائیں اور وہ تین ہیں : 1. فاعل نے جس چیزکی دھمکی دی ہے، اس کے وہ وقوع پر قادر ہو۔ اور دھمکی دیا جانے والا دفاع سے عاجز ہو، اگرچہ وہ دفاع دوڑنے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ 2. ظن غالب ہو کہ اگر اس نے یہ کام نہ کیا تو فاعل جو چاہتا ہے کر گزرے گا۔ 3. فاعل نے جس چیز کی دھمکی دی، اس کو فوراً کرے۔ (فتح الباری :۱۲/۳۹۰)