کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 28
3. ایسا شخص شرکِ اکبر کا مرتکب ہے اوراس کا حکم پہلے گزر چکا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ہمیں اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ سلف اسی بات کے قائل تھے۔ عرصہ ہوا مرکزی جمعیت اہلحدیث کی سرگودھا میں منعقد آل پاکستان کانفرنس میں یہ مسئلہ٭ اُٹھا تھا اور علما کرام کا اختلاف طول پکڑ گیا تھا ، اسکے پیش نظر محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے اوپر درج شدہ فتویٰ تحریر فرمایا تھا۔
زنا سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے یا نہیں ؟
٭ سوال : کیا زنا سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے یا نہیں ؟
جواب:بالا صورت میں مزنیہ کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا ہے اور راجح مسلک کے مطابق زنا سے حرمت ِمصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔سنن ابن ما جہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
(( لا یحرم الحرام الحلال)) (رقم:۲۰۱۵)
’’حرام کے ارتکاب سے حلال چیز حرام نہیں ہوتی۔‘‘
عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ إذا زنی بأخت امرأتہ لم تحرم علیہ امرأتہ ’’جب کوئی اپنی سالی سے زنا کرلے تو اس سے اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی۔‘‘ (صحیح بخاری ،کتاب النکاح، باب ما یحل من النساء وما یحرم ۔ ۔ ۔ الخ)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جمہور زنا سے حرمت کے قائل نہیں ، ان کی دلیل یہ ہے:
وحجتہم أن النکاح في الشرع إنما یطلق علی المعقود علیہا لا علی مجرد الوطء وأیضا فالزنا لاصداق فیہ ولاعدۃ ولا میراث۔قال ابن عبد البر: وقد أجمع أھل الفتوٰی من الأمصار علی أنہ لا یحرم علی الزاني تزوج من زنی بہا فنکاح أمھا وابنتہا أجوز (فتح الباری :۹/۱۵۷)
’’ان کی دلیل یہ ہے کہ شرع میں نکاح کا اطلاق وہاں ہوتا ہے،جہاں باقاعدہ عقد کیا گیا ہو۔ مجرد وطی پر نکاح کا اطلاق نہیں کیاجا سکتا۔ نیز زنا میں حق مہر، عدت اور وراثت کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : تمام بلاد کے اہل فتویٰ کا اس بات پر اجماع ہے کہ زانی کے لیے اس عورت سے نکاح کرنا حرام نہیں ہے جس سے وہ زنا کر چکا ہے،جب
_____________
٭ اسلام آباد کے ماہنامہ دعوۃ التوحید میں بھی یہی موقف پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، مزید دلائل اور تفصیل کے لئے دیکھیں: ’تعظیمی سجدہ کا حکم‘ (شمارہ جنوری ۲۰۰۵ء) ص ۳۸ تا ۴۱ (ح م)