کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 25
اس آیت ِکریمہ میں مطلقاً غیر اللہ کو سجدہ کرنے سے منع کیا گیا ہے اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے استاذ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ ’’اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ حکم سورج، چاند پرہی موقوف نہیں بلکہ سجدہ محض خالق کا حق ہے، مخلوق کا نہیں ؛ خواہ سورج، چاند ہو یا کوئی اور مخلوق ہو اور﴿إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ﴾ سے مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سجدہ غیر کوہوگیا تو پھر خاص اللہ کے عابد نہیں رہو گے، بلکہ مشرک ہوجاؤ گے۔ اس کی مثال ایسی ہے، جیسے قرآنِ مجید میں ہے: ﴿قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ﴾ (آ لِ عمران :۳۱) ’’ کہہ دیں کہ اگر تم مجھ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے مقابلہ میں کسی اور کی اتباع کرو گے، خواہ کسی طرح سے ہو تو پھر اللہ کی محبت کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ ٹھیک اسی طرح آیت ِبالا کا مطلب سمجھ لینا چاہئے کہ جب غیر کو سجدہ ہوا(خواہ اس کا نام سجدۂ تعظیمی رکھو یا کچھ اور) تم خاص اللہ کے عابد نہیں رہ سکتے بلکہ مشرک ہوجاؤ گے۔ گویا ہماری شریعت میں سجدہ مطلقاً حرام کردیا گیا ہے خواہ اس کا نام کوئی کچھ بھی رکھے اور اس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ میں ہے: أما تقبیل الأرض ووضع الرأس ونحو ذلک مما فیہ السجود،مما یفعل قدام بعض الشیوخ وبعض الملوک فلا یجوز،بل لایجوز الانحناء کالرکوع أیضا کما قالوا للنبي صلی اللہ علیہ وسلم :الرجل منا یلقی أخاہ أینحني لہ؟ قال: (( لا)) ولما رجع معاذ من الشام سجد للنبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال: (( ما ہذا یا معاذ؟)) قال: یا رسول ﷲ ! رأیتہم في الشام یسجدون لأساقفتہم ویذکرون ذلک عن أنبیائھم فقال: (( کذبوا علیہم لوکنت آمرًا أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأۃ أن تسجد لزوجھا من أجل حقہ علیھا۔ یا معاذ ! إنہ لا ینبغي السجود إلا ﷲ)) وأما فعل ذلک تدینا وتقربا فھٰذا من أعظم المنکرات،ومن اعتقد مثل ھذا قربۃ وتدینا فھو ضالّ مفتر،بل یبین لہ أن ھٰذا لیس بدین ولا قربۃ فإن أصرعلی ذلک اُستِیب فإن تاب وإلا قتل (فتاویٰ ابن تیمیہ :ج۱/ص۱۱۶، طبع جدید :ج۱/۳۷۲)