کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 20
بھی زیادہ نازک و کمزور ہیں کیونکہ یہ سراسر قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ کے خلاف ہیں ۔
ان کی کم عقلی و خام خیالی کا ایک بین ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ یہ جشن محبت ’ عقیدتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کے اظہار کا ذریعہ ہیں ۔ میلاد النبی کی یاد مسرتوں کی سوغات ہے اور جو اس سے گریزاں ہے وہ محبت ِرسول کا پاسدار نہیں ، حالانکہ یہ دیوانگی اور بے بنیاد دلیل ہے۔ اس طرح کے دعویدار ظن و تخمین کے پرستار اور نفس کے غلام ہیں ، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت کا معیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی اتباع اور آپ کی سنت کی پابندی میں ہے، نہ کہ گمراہ کن محفلوں کے سجانے اور روشنیوں کی دنیا بسا کر نئے تماشے دکھانے میں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ إنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ﴾
’’آپ کہئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘ (آلِ عمران :۳۱)
ان کا ایک باطل خیال یہ بھی ہے کہ یہ مجالس و محافل بدعت ِحسنہ ہیں اور ہر بدعت کو گمراہی سے تعبیر کرنا غلط ہے۔لیکن قرآن و سنت میں ایسی دلیل کہاں ہے جس سے اسلام میں بدعت ِحسنہ کی تقسیم نکلتی ہو؟ ان کی خام خیالی یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں : لوگ ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے آئے ہیں اور ایسی محفلوں کو بغیر کسی اعتراض و نکیر کے بجا لاتے آئے ہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم لوگوں کے اعمال و کردار کی پرستش نہیں کرتے، ہم تو صرف قرآن و سنت سے ثابت شدہ حقیقت کو اٹل سمجھ کر مانتے ہیں ۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ شیطان نے منکرات کو ان کے سامنے مزین کرکے پیش کیا، اب وہ اُلجھ گئے ہیں اور اس میں بے جا دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ایسی محفلوں میں شرکت کے لئے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں ، ان پر گرے بلکہ مرے پڑتے ہیں ، عصبیت کا لبادہ اوڑھ کر آتے ہیں ، ان کی طرف سے مدافعت کرتے ہیں اور ان کے خلاف آواز اُٹھانے والوں پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں ۔ حالانکہ ان میں بیشتر ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے نہ جانے کتنے شرعی فرائض و واجبات کو پس پشت ڈال رکھا ہوا ہے، بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے پامال کیا ہے۔ اس راہ میں ان کی زبان نہیں کھلتی، ان کا سر