کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 19
’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جشن و خوشی کے طور پر منانے کا رواج سلف صالحین میں مقتضائے حال اور عدمِ مانع کے باوجود نہیں رہا۔ اگر یہ خیر محض ہوتا یا راجح مسئلہ ہی ہوتاتو وہ ہم سے پہلے اس دعوت پر لبیک کہتے، کیونکہ وہ محبت ِرسول میں ہم سے کہیں زیادہ پیش پیش اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و احترام کے ہم سے کہیں زیادہ دل دادہ اور خیرو بھلائی کے کاموں میں ہم سے کہیں زیادہ خواہش مند تھے۔‘‘ آگے چل کر فرماتے ہیں :
’’رہا مسئلہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل، اس کی نشستوں اور کارروائیوں میں شرکت، اور رقص وسرود، گانے بجانے کی مجلسوں میں شمولیت اور عبادات کی طرح دلچسپی سے ان کو اختیار کرنے کا تو ان کے منکرات ہونے میں صاحب ِعلم و ایمان کو قطعاً شک و شبہ نہ ہوگا۔ یہ تو وہ منکرات وبدعات ہیں جن سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اب کوئی جاہل مطلق اور زندیق و فاسق ہی اُنہیں خیر کی نگاہ سے دیکھے گا۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ:۱۰/۳۷۰،۳۷۱)
٭ برادرانِ اسلام! تین قسم کے لوگ ہیں جو اس طرح کے گمراہ کن اعمال میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں :
1. جاہل و ناداں اور تقلید کے متوالے جو زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو ایسا کرتے دیکھا ہے لہٰذا ہم بھی ان کے نقش ِپا کے راہی ہیں ۔ ان کی مثال اس فرمانِ الٰہی کے موجب ہے
﴿إنَّا وَجَدْنَا اٰبٰائَ نَا عَلٰی اُمَّۃٍ فَاِنَّا عَلیٰ اٰ ثـَارِھِمْ مُھْتَدُوْنَ﴾ (الزخرف:۲۲)
’’ہم نے اپنے آبا کو اسی طریقہ پر پایا لہٰذا ہم ان ہی کے نقوش کے پیروکار ہیں ۔‘‘
2. زر خرید، گھروں کے خادم، اور فساق و فجار جو ان جشنوں کے پس پردہ اکل و شرب، لہو ولعب اور اختلاط و اجتماع کے ذریعے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں ۔
3. ضلالت و گمراہی کے پرستاران مبلغین اور کینہ پرور دشمنانِ اسلام جو دین کے خلاف دسیسہ کاریوں میں مشغول ہیں اور لو گوں کو جادۂ سنت سے ہٹا کر بدعات و خرافات کی راہ پر لگا دینا چاہتے ہیں ۔ بدعت کے ان بہی خواہوں کے ذہنوں میں شیطان نے کچھ شبہات پیدا کردیے ہیں ۔ اس نے بدعات کو آراستہ و پیراستہ کرکے انکے سامنے پیش کیا، اب وہ اِتراتے پھرتے ہیں کہ اس لبادہ کو عوام پر ڈال دیں ۔ حالانکہ یہ شبہات مکڑی کے جالے سے