کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 18
ہوا کہ اس طرح کے اعمال سے تنبیہ فرمائی گئی ہے۔
نیز سدّ ذرائع اور ازالـۂ ضررکا مسلمہ قاعدہ بھی اپنی جگہ اٹل ہے، اور ضرر في الدین سے بڑھ کر اور کیا ضرر ہوسکتا ہے؟
یہ معاملہ یہیں پر آکر نہیں رُک جاتا بلکہ ان محفلوں میں منکرات تک کا ارتکاب ہوتا ہے اور شرک باللہ سے بڑھ کر اور کوئی منکر نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعائیں مانگی جاتیں اور ان سے حاجت روائی کی جاتی ہے۔ مشکل کشائی کی دہائی دی جاتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ عقیدت میں ایسے نعتیہ مدحیہ قصائد پیش کئے جاتے ہیں جن کے ڈانڈے شرک و غلو سے جاملتے ہیں ۔ ان میں اختلاط کی گرم بازاری بھی ہوتی ہے، مال و دولت کا بے جا اسراف ہوتا ہے، ایک ہنگامہ شوروغوغا برپا ہوتا ہے اور جھوٹے راگ الاپے جاتے ہیں ۔باوجود یہ کہ ربیع الاوّل کے جس مہینے میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ولادتِ باسعادت سے سرفراز ہوئے، بعینہٖ اسی مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی تو پھر حزن و ملال کو بالائے طاق رکھ کر مسرت وشادمانیوں کے نغمے الاپنا کہاں سے افضل و اولیٰ قرار پاگئے؟
الغرض ربیع الاوّل کی بعض راتوں کو ان محفلوں اور مجالس کے لئے مخصوص کرنا، کوتاہ اندیشی اور مؤرخین کے مختلف فیہ اقوال کے ہوتے ہوئے ہویٰ پرستی کے مترادف ہے۔
اب جس نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جشن میلاد النبی منانے کے لئے کسی ایک رات کا تعین کیا تو وہ ذمہ دار ہے کہ دلیل پیش کرے حالانکہ دلیل نام کی کوئی چیز ان کے پاس نہیں ۔ دوسری طرف علمائے اسلام جو اتباعِ سنت ِرسول میں مشہور و معروف ہیں ، ان کی تالیفات کا بیش بہا خزانہ اور ان کے اقوال کا گراں مایہ سرمایہ موجود ہے جو ان محفلوں کے لئے دلیل قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’کسی بھی ایسے تہوار کو اپنانا جو شریعت کے مقرر کردہ اعیاد و مراسم کے علاوہ ہے، جیسے ربیع الاوّل کی بعض راتوں کو اس غرض کے لئے مخصوص کرلینا کہ یہی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات ہے تو یہ بدعت ہے، جسے سلف صالحین نے پسند نہیں فرمایا، نہ ہی عملاً کبھی برتا۔ ‘‘
نیز فرماتے ہیں :