کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 17
الدین سے پرہیز و اجتناب لازم ہے۔
ثالثاً : اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین کی تکمیل فرما دی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے من وعن اللہ کا پیغام واضح انداز میں لوگوں تک پہنچا دیا۔ اب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے دین میں اختراع گویا اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معاذ اللہ دین کی تکمیل نہیں فرمائی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغامِ الٰہی کی تبلیغ میں کوتاہی برتی تاآنکہ چھٹی صدی ہجری میں متاخرین اور ان کے بعد کچھ دوسرے لوگ پیدا ہوئے اور اُنہوں نے شریعت ِالٰہی میں اپنی طرف سے کچھ نئی چیزیں شامل کرلیں ۔ حالانکہ ان کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی ثبوت، اور نہ ہی احکامِ الٰہی کو ان کی بدعات سے کوئی واسطہ، بالائے ستم یہ کہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ یہ محافل تقرب الیٰ اللہ کا ذریعہ ہیں ۔ کیا اللہ تعالیٰ کی شان میں بے باکانہ اعتراض کی یہ جرات لاحاصل اور تبلیغ رسالت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تھک کوششوں کے آگے مجنونانہ گستاخی نہیں ؟
رابعاً: اس طرح کی محفلوں اور اجتماعات کا انعقاد جادۂ حق سے بغاوت کی علامت اور یہود و نصاریٰ کے اعیاد و مراسم کی نقل ہے، حالانکہ ہمیں اہل کتاب سے مشابہت اور ان کے طریقوں کی نقل سے روکا گیا ہے۔
خامساً : شریعت کے اُصول و قواعد اور دین کے اغراض و مقاصد اور مزاج و طبیعت ان بدعات و خرافات کا قلع قمع کرتے ہیں ۔ پھر جملہ اسلامی عبادات محض توقیفی ہیں ، یعنی وہ اللہ کی طرف سے رہنمائی / ہدایت پر ہی موقوف ہیں ، اب کسی کے لیے نہیں کہ وہ شریعت سازی کرنے کی جرات کرنے لگے۔ شریعت اور حق وہی ہے جو اللہ ربّ العزت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿أَمْ لَھُمْ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوْا لَھُمْ مِنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اللّٰہُ …﴾ (الشوریٰ:۲۱)
’’کیا ان لوگوں کے ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں شریعت مقرر کی ہے، جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔‘‘
نیز شریعت کا یہ ثابت شدہ و مسلمہ قاعدہ ہے کہ باہم متنازع فیہ اُمور میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ ہم نے اس بابت جب دونوں مآخذ کی طرف رجوع کیا تو یہی معلوم