کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 16
جسم میں خون کی آمیزش ہوجاتی ہے۔ برادرانِ اسلام! آج دین میں نئی نئی باتوں کا رواج بڑھتا جارہا ہے، جن سے لوگوں کے خیالات و افکار متاثر ہورہے ہیں ، اور یہ خیالات دل و دماغ میں راسخ و پیوست ہوتے جارہے ہیں ۔ جن پربلا شبہ معروف وحسنات کا لبادہ ڈال دیا گیا ہے۔ یہ وہ اعمال ہیں جنہیں وہ ربیع الاوّل کے مہینے میں انجام دیتے ہیں ، جلسے جلوس اور محفلیں منعقد کرتے ہیں ، جن کے جواز کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ میں کوئی دلیل نہیں ۔ ان جلسے، جلوسوں اور محفلوں کو وہ ’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ بعض نے تو حد کردی کہ وہ اس مہینہ میں خاص طور پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا بالقصد رخت ِسفر باندھتے ہیں کہ وہ جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تقرب حاصل کریں ۔ یہ حضرات بڑے زعم و فریب میں مبتلا ہیں جب کہ ان کے پاس افعال و اعمال کے لئے کوئی سند ودلیل نہیں ۔یہ وہ تخصیص ہے جس کے لئے وہ کوئی ثبوت و شہادت نہیں پیش کرسکتے: ﴿قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ إنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ (البقرۃ:۱۱۱) ’’آپ ان سے کہئے: کہ اگر اس دعویٰ میں سچے ہو تو کوئی دلیل پیش کرو۔‘‘ ربیع الاول کے اس مہینہ یا اس کے بعض دنوں کو مجالس و محافل کے لئے خصوصیت سے اپنا لینا مندرجہ ذیل امور کی بنا پر شرعاً صحیح نہیں ہے: اوّلاً:یہ دین میں ایک نئی ایجاد ہے، اس لئے کہ یہ نہ تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، نہ ہی خلفاے راشدین، دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تبع تابعین اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں سے کسی نے ایسا کیا۔ حالانکہ یہ حضرات سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ پابند و شناسا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سب سے زیادہ سرشار اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے سب سے زیادہ تابعدار و فرمانبردار تھے۔ لہٰذا ہمبعد کے مسلمانوں کے لئے بھی اتنی ہی کی گنجائش ہے جس قدر گنجائش اُنہوں نے روا رکھی، اگر یہ طرزِعمل خیر کا باعث ہوتا تو وہ یقینا اس میں ہم سے پہل کرچکے ہوتے۔ ثانیاً: مذکورہ بالا آیاتِ قرآنیہ اور احادیث ِ شریفہ کی روشنی میں یہ بات ظاہرو باہر ہوچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واجب، آپ کی سنت کی پیروی ضروری اور ابتداع فی