کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 15
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’لوگوں پہ کوئی سال ایسا نہ گزرے گا جس میں وہ کوئی بدعت ایجاد نہ کریں گے اور کسی سنت کو مردہ کرچکے ہوں گے۔ یہاں تک کہ بدعتیں زندہ وپائندہ ہوتی رہیں گی اور سنتیں مردہ ہوتی چلی جائیں گی۔‘‘ (المعجم الکبیراز امام طبرانی :۱۰/۳۱۹) سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ہر نئی بات گمراہی ہے خواہ لوگ اسے حسنات میں شمار کیوں نہ کریں ۔‘‘ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آپ کے خلفا نے سنت پہ ثابت قدم رہ کربتلا دیا کہ اس کی پابندی درحقیقت قرآنِ مجید کی تصدیق، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور دین ِمتین کو تقویت پہنچانا ہے۔ جو اس پر عمل پیرا ہو، وہ راہ یاب ہے، جس نے اس سے مدد چاہی وہ فائز المرام ہے اور جو اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا، اس نے مؤمنین، صالحین و کاملین سے بغاوت کی راہ اختیار کی، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو منہ کی کھلائے گا اور جہنم رسید کرے گا۔‘‘ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس امت کے متاخرین کی اصلاح و کامیابی صرف اس طریقہ پر ہوگی جس پر چل کر قرونِ اولیٰ کے مسلمان کامیاب و راہ یاب ہوئے۔‘‘ (الاعتصام از امام شاطبی:۱/۴۹) بعض بزرگوں سے یہ قول منقول ہے کہ’’ مخلوق ُاللہ کے لئے تمام راستے بند ہیں ، صرف ایک ہی راستہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش ِقدم کی پیروی کی جائے۔‘‘ …………………………… میرے دینی بھائیو! جب دین و مذہب پر غربت و اجنبیت طاری ہے، جب اس کے اعوان و انصار کی قلت ہوگئی، جب دشمنانِ دین کی تعداد فزوں تر ہوگئی، جب اہل ایمان ویقین تہی دامن و تہی دست ہوگئے اور دین سے بیزار ہوکر گریز کی راہ اپنالی، جب داعیانِ سوء اور اربابِ بدعات و خرافات کی کثرت ہوگئی تو حالات میں ایک تغیر رونما ہوگیا۔ معرو ف نے منکر کا روپ دھار لیا اور سنت کو بدعت اور بدعت کو سنت کا نام دے دیا گیا۔ پھر تو بدعات لوگوں میں رواج پذیر ہوگئیں ، ان کے دل و دماغ اور ان کے قلوب و اذہان میں سرایت کرگئیں ، جیسے