کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 13
زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں کوئی دُکھ کی مار نہ پڑے۔ ‘‘ اسی طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کی خلاف ورزی خواہ زندگی میں ایک بار ہی کیوں نہ ہو، کو کھلی گمراہی اور دین میں انحراف کے مترادف قرا ردیا ہے جوبلا شبہ نعمت ِایمان کے فقدان اور اس کے زوال کا موجب ہے۔ فرمایا: ﴿وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ إذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ أمْرًا أنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِیْنًا﴾ ’’اور کسی مسلمان مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے بعد کسی امر کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔‘‘ (الاحزاب:۳۶) نیز فرمایا: ﴿فَلَا وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حتیّٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِيْ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ ( النساء :۶۵) ’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ ایماندار نہیں ہوسکتے جب تک آپس کے تمام اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ۔ پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں ، اس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہٗ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِا للّٰہِ وَالْیَوْمِ الٰاخِرِ﴾ (النساء :۵۹) ’’اگرکسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔‘‘ احادیث ِ مبارکہ کے بیش بہا ذخیرے بھی ان دلائل و احکامات سے بھرے پڑے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا ٹکڑا ملاحظہ فرمائیے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( فمن رغب عن سنتی فلیس مني)) (صحیح بخاری:۱۸۲۸) ’’جس نے میری سنت سے اعراض وپہلو تہی برتی، وہ مجھ سے نہیں ۔‘‘ نیز سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إنہ من یعش منکم فسیرٰی اختلافا کثیراً فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء