کتاب: محدث شمارہ 298 - صفحہ 10
جوتوں اور ننگے پاؤں والوں کا بھی یہی حکم ہے۔ ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت نے ہر مشکل میں آسانی کا پہلو بہرحال ملحوظ رکھا ہے۔ اس میں ہمارے لئے تربیت کا پہلو یہ ہے کہ شریعت کی تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے اور باہمی اختلافات اور انتظامی معاملات میں اگر ہم نرمی اور آسانی کے رویہ کو پیش نگاہ نہیں رکھیں گے تو زندگی بدنما اور اجیرن بن جائے گی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہر معاملہ کی خوبصورتی یا بدنمائی اسی صفت ِرفق سے وابستہ ہے۔ رفق و آسانی یقینا شریعت کا عمومی مزاج اور شدت و غلو اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( من یحرم الرفق یحرم الخیر)) (صحیح مسلم :۲۵۹۲) ’’ جو شخص (شریعت کے اس مزاج سے نا آشنا اور) رفق و آسانی سے محروم ہے ،وہ خیروبرکت سے بھی محروم کردیا گیا۔‘‘ اپنی زوجہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( یا عائشۃ ارفقي فإن ﷲ إذا أراد بأھل بیت خیرا دلھم علی باب الرفق)) ’’اے عائشہ! نرمی کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی گھرانہ کے ساتھ خیر بھلائی کا ارادہ کریں تو رِفق کا دروازہ ان کے لئے وا کردیتے ہیں ۔‘‘ (مسند احمد:۶/۱۰۴) ان تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ ہم شریعت کے اس عمومی مزاج کے مطابق اپنی زندگی اور قول و کردار کو ڈھالیں ۔ یہی گوشۂ عافیت ہے اور اسی میں ہی دنیا وآخرت کی بھلائیاں پنہاں ہیں ۔ (خطاب: حافظ عبد الرحمن مدنی ٭ ترتیب: محمد اسلم صدیق) [خطبہ جمعہ : ۲۴/مارچ ۲۰۰۶ء … بمقام مسجد جامعہ لاہور الاسلامیہ]