کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 99
جسارت کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔ جس کا مرتکب اگر مسلمان ہو تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوکر مرتد ہو جاتا ہے اوراگر غیر مسلم ہو تو تب بھی اس کو کسی طو رپر گوارا نہیں کیا جاسکتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم رہتی دنیا تک تمام انسانیت کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، جملہ مذاہب کے ماننے والوں کے ہاں تو آپ کاتذکرہ کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہی ہے جبکہ باقی انسانیت کی فطرتِ سلیم میں قرآن کی رو سے ربّ کی توحید کا اقرار اور اسلام کی حقانیت کا اثبات موجود ہے۔ آج اگر بعض کم نصیبوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قبول کرنے کا شرف حاصل نہیں ہوا اور وہ آپ کی اُمت ِاجابت میں شامل ہونے سے محروم ہیں تو پھر بھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ِدعوت میں ضرور شامل ہیں ۔ اور یہ بات کئی فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے۔
آپ نے دیگر انبیا کرام علیہم السلام سے اپنے امتیازات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس امتیاز کا بھی تذکرہ فرمایا کہ ’’پہلے انبیا ایک مخصوص قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے اور میں تمام انسانیت کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔‘‘(بخاری: ۴۳۸) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت انسانوں سے بڑھ کر جانوروں کو بھی شامل ہے اور آپ کا لقب رحمتہ للعالمین ہے۔آپ شرفِ انسانیت اور اللہ عزوجل کے محبوب ِگرامی ہیں ، اس لئے آپ کی توہین انسانیت کی توہین کے مترادف ہے، جس کی کسی غیر مسلم کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد واقعات اس پر شاہد ہیں کہ توہین کے مرتکب یہودیوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے جانثاروں کو بھیج کر قتل کروایا۔ یہ شانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا ہے کہ کل انسانیت کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا تحفظ کی جائے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
لا وﷲ ما کانت لبشر بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم (سنن ابوداؤد: ۴۳۶۳) مختصراً
’’اپنی توہین کرنیوالے کو قتل کروا دینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لئے روا نہیں ہے۔‘‘
٭ اسلام نے یہ اعزاز صرف نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص نہیں کیا بلکہ ناموسِ رسالت کے اس تحفظ میں تمام انبیاے کرام کو بھی شامل کیا۔ ایک طرف مسلمانوں کو ہر قوم کی مقدس شخصیات اور شعائر کے احترام کا درس دیا اور دوسری طرف تمام انبیاکا یہ حق بنا دیا کہ ان کی شان میں توہین کرنے والوں کو زندگی کے حق سے محروم کردیا جائے۔اس سلسلے میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت موسیٰ کے ایک قصے پر اپنی کتاب الصارم المسلول میں تفصیلی بحث کرتے ہوئے بڑا بلیغ استدلال کیا ہے :