کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 98
اس امر پر قدرت نہیں دی کہ وہ انبیاکی صورت اختیار کرسکے۔ جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن موجود ہے: ’’جو شخص خواب میں میری زیارت سے مشرف ہوا، اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار کرنے پر قادر نہیں ۔‘‘ (مسلم: ۲۲۶۶)
اہانت ِانبیا پر مسلم اداروں کا مشہور موقف: ہمارا یہ موقف نیا نہیں کہ غیر مسلموں کو لاعلمی کی رعایت مل سکے۔ بلکہ نہ صرف انبیاء کرام بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تصاویر اور فلموں میں اداکاری کے حوالے سے بھی عالم اسلام کے مسلمہ دینی اداروں کا موقف بھی اہل علم میں مشہور ومعروف ہے۔ اس سلسلے کی ایک تفصیلی بحث ۳۱ برس قبل سعودی عرب کی وزارت مذہبی اُمور کے ایک تفصیلی فتویٰ میں شائع کی جا چکی ہے۔
یوں تو اس فتویٰ میں براہِ راست اس موضوع کو زیر بحث بنایا گیا ہے کہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردار کو فلمایا جاسکتا ہے، لیکن اسی ضمن میں انبیا کرام علیہم السلام کی تصاویر اور ان کے مجسمات پر بھی سیر حاصل بحث موجود ہے۔ اس بحث میں رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ، المنظمات الإسلامیۃ العالمیۃ، ازہر کی فتویٰ کونسل اور سعودی عرب کی کبار علما کونسل کے فتاویٰ کو بنیاد بناتے ہوئے سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی نے شیخ محمد بن ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ آلِ شیخ کی سربراہی میں ان تمام چیزوں کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے اور اسے ان مقدس شخصیات کی اہانت سے تعبیر کیا ہے۔ اس مضمون میں حرمت کی بنیاد بننے والے نقصانات اور مفاسد کا تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے قرآنِ کریم کی آیات اور احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی استدلال کیا گیا ہے، تفصیل کے شائقین کے لئے ۲۵ فل سکیپ صفحات پر پھیلے ہوئے اس فتویٰ کا مطالعہ مفید ہوگا۔
( دیکھیں : مجلۃ البحوث الإسلامیۃ: عدد اوّل، رمضان ۱۳۹۵ھ، ص ۲۱۱ تا ۲۳۶)
3. مذکورہ بالا دو نکات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصاویر بنانا بذاتِ خود اسلامی احکامات سے متصادم ہے گو کہ ان میں اہانت کا کوئی پہلو بھی نہ پایا جائے۔ایسی تصاویر شرک کا پیش خیمہ، صریح فرامین ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت وسیرت پر اتہام کی قبیل سے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری روایات میں مقدس شخصیات کی تصاویر کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ البتہ حالیہ واقعات میں جب ان تصاویر میں اہانت او راسلامی تعلیمات کے مذاق کا پہلو بھی بطورِ خاص شامل کرلیا جائے تو یہ مکروہ فعل شرعی گناہ سے بڑھ کر ایک عظیم
[1] اس امر کے ثبوت کے لئے کہ اُن دِنوں پرویز صاحب اعتقاداً نہیں، بلکہ مصلحتاً منافقت کا لبادہ اوڑھ کر سنت کا نام لیا کرتے تھے، دیکھئے میری کتاب : ’جناب غلام احمد پرویز، اپنے الفاظ کے آئینہ میں‘
طلوع اسلام، دسمبر ۱۹۷۴ء، ص۳۴۴