کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 97
وغیرہ۔ البتہ اسلام جو الہامی مذاہب کی آخری اور مکمل ترین شکل ہے، اس کی رو سے مقدس شخصیات کی تصویر کشی کرنا یا ان کے مجسّمے بنانا بذاتِ خود خلافِ شرع ہے جب کہ اس تصویر یا مجسّمے میں اہانت یا رسوائی کا کوئی پہلو بھی نہ پایا جاتا ہو!!
اسلام کی رو سے تصویر بنانا ناجائز او رمجسمہ سازی حرام ہے۔ اور تصویر سازوں کے لئے زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ ایسے ہی مجسمہ سازی بھی حرام ہے اور آج تک مسلم معاشروں کی تاریخ اس تصور سے یکسر خالی رہی ہے۔ تصویر بنانے کی اس حرمت کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں ، جن میں بطورِ خاص شرک کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔
چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مقدس شخصیات کی تصاویر میں ’شرک کے نکتہ آغاز بننے کا یہ امکان‘ قوی تر ہوجاتا ہے، اس لئے عام آدمی کی تصاویر پر تو کوئی بحث مباحثہ ہو سکتا ہے لیکن متبرک شخصیات کی تصاویر کی اسلام میں کلیتاًکوئی گنجائش نہیں نکل سکتی۔
2. تصویر سازی کے عنصر کے علاوہ مقدس شخصیات کی تصاویر میں ایک پہلو ان پر تہمت طرازی کا بھی ہے۔ کیونکہ جب ان کی تصویر کے بارے میں کوئی یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ فلاں نبی علیہ السلام کی تصویر ہے بلکہ وہ تصویر یا مجسمہ محض مصور کے ذ ہنی تخیل پر مبنی اور اس شخصیت کے بارے میں اس کے ذاتی احساسات وتصورات کا عکاس ہے جو ظاہر ہے کہ محض اس کے ذاتی تصور سے زیادہ کوئی واقعاتی یا مستند حیثیت نہیں رکھتا۔اگر یہی مصور اس تصویر کو کسی اور شخصیت سے منسوب کردے تو ناظرین کے پاس اس کو تسلیم کرنے کے سوا بھی کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
علاوہ ازیں اسلام کا معمولی علم رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا جز ہے، اور آپ کا ہرقول وفعل ایک شرعی حیثیت رکھتا ہے، ایسے ہی اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی آپ پر ایمان رکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ومحور اور ان کے لئے اُسوۂ حسنہ ہے۔ اس سیرت کی اتباع کرنا، ان کے تصورِایمان میں داخل ہے۔ ایک تصویر یا مجسمہ ایک شخصیت کا عکاس ہوتا ہے، جس میں اس شخصیت کی سیرت کے کئی پہلو جھلکتے ہیں ۔ آپ کی ایسی صورت وسیرت سے محبت جو مبنی برحقیقت نہیں بلکہ محض کسی انسان کے تخیل کی پرواز کا نتیجہ ہے، اسلامی احکام اور اُسوۂ حسنہ کے تصور میں خلل کا باعث بنے گی۔
انبیا کرام علیہم السلام کی مبارک صورتوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص وقار عطا کیا ہے۔ اور شیطان کو بھی
[1] طلوع اسلام، جولائی ۱۹۳۸ء، ص۶۲
[2] طلوع اسلام، اکتوبر ۱۹۳۸ء، ص۲۹
[3] طلوع اسلام، اکتوبر ۱۹۳۸ء، ص۳۴
[4] طلوع اسلام، نومبر۱۹۳۸ء، ص۳۷
[5] طلوع اسلام، جنوری ۱۹۴۰ء، ص۲۴