کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 237
سوگیا۔ مولانا بھی لیٹ گئے اور اِسی دوران آپ کی رُوح قفس ِعنصری سے پرواز کرگئی، جس کا گھر والوں کو اِس وقت علم ہوا، جب مولانا کی بہو اور حکیم محمد جمیل کی اہلیہ نے آپ کوچار بجے آواز دی کہ ابا جی! اُٹھو چار بج چکے ہیں ۔ آپ نمازِ تہجد ادا کریں ، میں سحری کا کھانا تیار کرتی ہوں اور پھر دونوں روزہ رکھتے ہیں ۔ محترمہ کو یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ ایک ہی آواز پر اُٹھ جانے والے آج تین چار دفعہ آواز دینے کے باوجود نہیں اُٹھے۔ اُنہوں نے قریب جاکر بازو سے ہلایا تو دیکھا کہ جسم ٹھنڈا ہوچکا ہے، پھر اُنہوں نے سب گھر والوں کو جگایا تو معلوم ہوا کہ آپ تو اپنے مالک ِحقیقی کے پاس چلے گئے۔ ﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ،وَّیَبْقیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلَالِ وَالإِکْرَامِ﴾ یہ واقعہ بروز جمعرات مؤرخہ ۱۰/ نومبر۲۰۰۵ء کو پیش آیا۔ کچھ عرصہ پیشتر آپ نے اپنی رہائش جامعہ سلفیہ کے نزدیک محلہ حاجی آباد میں اختیار کرلی تھی۔ اس لئے نمازِ جنازہ معروف دینی و علمی دانش گاہ جامعہ سلفیہ ہی میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ تعالیٰ نے بڑے رقت آمیز لہجہ میں پڑھائی جس میں جامعہ کے اساتذہ کرام، شیوخ الحدیث ، علما و تجار اور ہر مکتب ِفکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت فرمائی۔ بلا شبہ جامعہ کی تاریخ کا یہ ایک مثالی جنازہ تھا اور پھر جامعہ کے قریب ہی قبرستان میں اللہ تعالیٰ کی اس امانت کو اللہ تعالیٰ ہی کے سپرد کردیا گیا ؎ وہی ایک ہے جس کو دائم بقا ہے جہاں کی وراثت اسی کو سزا ہے سوا اس کے انجام سب کا فنا ہے نہ کوئی رہے گا، نہ کوئی رہا ہے ! جو پیدا ہوا ،اُس کو مرنا ہے آخر یہاں سے اسے کوچ کرنا ہے آخر آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب ِذوالجلال برادرم محمد جمیل اور دیگر تمام لواحقین کو صبر ِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے، ہمارے مولانا کی بشری لغزشوں سے دَرگزر فرمائے، اُن کی تمام حسنات ودینی خدمات کو شرف ِقبولیت سے نوازے اور اُنہیں اعلیٰ علیین میں بلند و بالا اور ارفع و اعلیٰ درجات سے سرفراز فرمائے۔ مع الذین أنعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشھدآء والصالحین وحسن أولئک رفیقا ۔۔