کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 236
سے اہتمام کرتے۔ روزانہ نمازِ فجر کے بعد طلوعِ آفتاب تک ذکر میں مشغول رہتے اور نماز اشراق ادا کرنے کے بعد گھر میں تشریف لے جاتے۔ علاوہ ازیں متحمل و برد بار، متواضع اور کریم النفس تھے۔ سالہا سال تک ایک ہی محلہ میں رہائش پذیر ہونے اور ایک ہی مسجد میں نمازیں ادا کرنے کی وجہ سے اُنہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ان کی شخصیت کے کئی جوہر سامنے آئے، یوں سمجھئے کہ وہ بالکل بے آزار انسان تھے، ایذا رسانی اور کسی کی دل شکنی کی شاید ان میں صلاحیت فطری طور پر ہی نہ تھی۔
۱۹۸۴ء میں جب میں اسلام آباد آگیا تو اِن سے ملاقاتیں کم ہوگئیں ، تاہم میں جب بھی فیصل آباد جاتا تو اِن سے ملاقات کی ضرور کوشش کرتا بلکہ اکثر و بیشتر مسجد ہی میں ملاقات ہوجاتی۔ نہایت بزرگانہ محبت و شفقت کا مظاہرہ فرماتے۔ غائبانہ طور پر بھی اپنے دوست واحباب میں فقیر کا اچھے الفاظ میں ذکر فرماتے، ایک دو بار اِن کی خواہش پر میں نے محمدی مسجد رضا آباد میں درسِ قرآن دیا تو اُنہوں نے بہت اچھے الفاظ میں حوصلہ افزائی فرمائی۔
ضعف اور پیرانہ سالی کے باعث اب آپ نے مستقل خطابت کا سلسلہ چھوڑ دیا تھا، تاہم گاہے گاہے مختلف مقامات پر خطبہ دے دیتے تھے۔ وفات سے صرف ایک دن قبل بروز منگل بعد از نماز عشا جامع مسجد محمدی اہلحدیث، رضا آباد میں درسِ قرآن و حدیث دیا۔ اگلے دن اسی مسجد میں نماز ِ عصر کی امامت کرائی اور نماز کے بعد بہت لمبی دعا مانگی۔ احباب جماعت کہنے لگے کہ آج تو مولانا نے خلافِ معمول بہت ہی لمبی دعا کی ہے۔
رمضان المبارک کے بعد شوال کے روزے رکھ رہے تھے۔ طبیعت ٹھیک تھی، شوال کا پانچواں روزہ جمیل دواخانہ، رضا آباد ہی میں افطار کیا اور پھر گھر جاکر معمول کے مطابق کھانا کھایا، نمازِ عشا بھی باجماعت کھڑے ہوکر ادا کی اور رات دس بجے تک خوش و خرم رہے۔
دس بجے کے بعد اپنے بستر پر لیٹ گئے اور پھر رات کے بارہ / ایک بجے کے درمیان دل کی تکلیف ہوئی جس کی وجہ سے اُٹھ کر بیٹھ گئے، آپ کے قریب ہی آپ کا ایک پوتا بھی لیٹا ہوا تھا، اس کی آنکھ کھل گئی تو اُس نے دیکھا کہ ابا جی بیٹھے ہوئے ہیں تو پوچھا ابا جان! آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ؟ آپ نے کہا کہ ہاں تکلیف تو ہے مگرتم سوجاؤ۔ بچے نے کہا کہ امی، ابو کو بلا لاؤں ، آپ نے کہا کہ نہیں کسی کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم بھی آرام سے سوجاؤ، بچہ