کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 235
کے محلہ افغان آباد میں خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے رہے نیز مختلف تبلیغی جلسوں اور اجتماعات میں بھی شرکت فرماتے اور اپنی خطابت کے جوہر دکھاتے رہے۔
۱۹۷۵ء میں بندۂ عاجز نے بھی چک ۳۶ گ ب سے فیصل آباد شہر میں رہائش منتقل کرلی۔ پہلے کچھ عرصہ محلہ عبداللہ پور میں گزارا اور پھر جب فرید کالونی رضا آباد میں رہائش اختیار کی تو مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی رہائش بھی اِن دِنوں اِسی علاقے میں تھی، عرصۂ دراز بعد ملاقات ہوئی تو بہت محبت و شفقت سے پیش آئے۔ وہی تروتازہ اور نورانی چہرہ، وہی پُربہار اور زعفرانی مجلس، وہی معلومات کا موجیں مارتا ہوا دریا، وہی ذکر ِالٰہی کی باتیں کہ مجلس سے اُٹھنے کو جی نہ چاہے۔
اِن کی تقریر سنے ہوئے ایک عرصہ ہوگیاتھا اور اِس کی تقریب اللہ تعالیٰ نے اِس طرح مہیا فرما دی کہ کچھ عرصہ بعد ہی میرے برادر ِاصغر کی شادی خانہ آبادی کے موقع پر بارات چک ۲ رام دیوالی ضلع فیصل آباد جانی تھی۔ ہم نے مولانا کوبھی بارات کے ساتھ جانے کی دعوت دی، جو اُنہوں نے قبول فرما لی۔ اتفاق کی بات کہ وہ جمعہ کا دن تھا، مسجد اہلحدیث اِس وقت چھوٹی تھی، لہٰذا بریلوی مکتب ِفکر کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کا پروگرام بنا اور طے پایا کہ خطبہ اور امامت کے فرائض مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ سرانجام دیں گے۔ گاؤں کے بھی تمام لوگ خواہ ان کا کسی بھی مسلک سے تعلق تھا، موجود تھے اور پھر بارات میں شامل لوگوں کی وجہ سے سامعین کی تعداد میں کافی اضافہ ہوگیا تھا۔ خطبہ شروع ہونے سے قبل میرے چچا جان مولانا عبدالمنان مرحوم، جن کی ماہر عملیات کی حیثیت سے بڑی شہرت تھی، مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے فرمانے لگے کہ آج آپ نے ایسا خطبہ دینا ہے کہ آپ کے دورِ جوانی کی خطابت کی یاد تازہ ہوجائے، مولانا نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر خطبہ ارشاد فرمایا اور واقعی اُن کا وہ بہت کامیاب خطبہ تھا۔ دورانِ خطبہ اُنہوں نے پنجابی زبان کے نعتیہ اشعار بھی پڑھے، اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بہت خوبصورت ترنم عطا فرمایا تھا۔ ترنم سے اشعار پڑھتے تو سامعین جھوم جھوم جاتے، اِس خطبہ سے اُنہوں نے بلاتمیز ِمسلک سب لوگوں کا دل جیت لیا یا یوں کہئے کہ وہ اپنے تمام سامعین کے قلب و نظر میں سما گئے تھے۔ رحمہم اللہ تعالیٰ!
مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ تہجد گزار اور شب ِزندہ دار بزرگ تھے، ذکر و فکر ِالٰہی اور نوافل کا کثرت