کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 233
اِس قدر بہرۂ و افر عطا فرمایا تھا کہ بسا اوقات مصافحہ کرتے وقت وہ میرا ہاتھ اِس طرح گرم جوشی سے دباتے کہ میں زمین پر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتا۔
حضرت محدث ویرو والوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسب ِفیض کے علاوہ آپ نے اور بھی مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کی، مثلاً اِس وقت کے منبع رُشد و ہدایت مدرسہ غزنویہ امرتسر میں آپ نے حضرت مولانا نیک محمد رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کئے۔ مولانا محمد اسحق چیمہ رحمۃ اللہ علیہ بھی حضرت مولانا نیک محمد رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے ارشد تلامذہ میں سے تھے، میں نے ادارۂ علوم اثریہ میں قیام کے دوران مولانا چیمہ رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کو بہت اچھے الفاظ میں حضرت مولانا نیک محمد رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے سنا، اپنے اِن گرامی منزلت شیخ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا چیمہ رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں اور وہ فرماتے کہ مولانا نیک محمد رحمۃ اللہ علیہ بلا شبہ اِسم بامسمّٰی تھے۔ مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ مرحوم نے چینیاں والی مسجد لاہور میں حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اکتسابِ ضیا کیا اور موطأ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور کئی دیگر کتب کا درس لیا۔ موضع باقی پور میں اُنہوں نے مولانا محمد ابراہیم باقی پوری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کئے، دہلی میں شیخ عطاء الرحمن رحمۃ اللہ علیہ مرحوم کے قائم کردہ مدرسہ رحمانیہ میں بھی آپ نے تفسیر، حدیث اور مختلف فنون کی کتابیں پڑھیں اور پھر مدرسہ رحمانیہ کے بعد آپ نے دہلی ہی کے ایک دوسرے ادارہ مدرسہ زبیدیہ میں اپنی تعلیم کی تکمیل کے مراحل طے کئے اور اسی ادارے سے سند ِفراغت حاصل کی۔ یاد رہے جماعت کے مشہور عالم اور محقق مولانا عزیز زبیدی رحمۃ اللہ علیہ بھی اِس ادارے میں آپ کے ہم سبق تھے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا نے خدمت ِ دین کے لئے خطابت کے میدان کا انتخاب کیا، اِن میں خطابت کی بیشترخصوصیات موجود تھیں ۔ وہ کشیدہ قامت، دلکش شخصیت، واضح اور صاف لہجہ، شیریں اور مترنم آواز اور توازن و اعتدال کے مالک تھے۔ اسلئے اپنی خطابت سے لوگوں کا دل جیت لیتے اور قلب و نظر میں سما جاتے۔ آپ نے خطابت کا آغاز موضع گوہڑ چک نمبر ۸ نزد پتوکی سے کیا اور وہاں سات سال تک خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
۱۹۴۷ء میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو آپ بھی ہجرت کرکے پاکستان میں تشریف لے آئے اور جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے، قیام پاکستان کے بعد آپ نے اُس