کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 232
وقت مولانا کی رہائش بھی چک ۳۶ گ ب میں تھی اور پھر اِس پر مستزاد یہ کہ وہ والد مرحوم کے بے حد گہرے دوست بھی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میری عمر تین چار سال کی ہوگی کہ والد مرحوم مولانا کے پاس گئے اور مجھے بھی اُٹھائے ہوئے ساتھ لے گئے۔ میرے ہاتھ میں اس وقت کانچ کی چھوٹی چھوٹی سی خوب صورت چوڑیاں تھیں ۔ مولانا نے والد صاحب سے لے کر مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور جب اِن کی نظرمیری چوڑیوں پر پڑی تو ناراض ہوئے اور فرمانے لگے کہ یہ لڑکوں کے ہاتھوں میں نہیں پہنانی چاہئیں ، اُنہوں نے چوڑیاں اُتار کر میری جیب میں ڈال دیں اور ساتھ ہی دل بہلانے کے لئے میری جیب میں چاندی کے دو روپے بھی ڈال دیے، جن کی اُس دور میں کافی قدر وقیمت تھی۔
والد ِمرحوم کا ۱۹۶۱ء میں انتقال ہوگیا تھا مگر مولانا مرحوم نے گہرے دوستانہ تعلقات کے باعث آخر وقت تک یاد رکھا۔ جب بھی ملاقات ہوتی، بے حد محبت و شفقت سے ملتے اور والد مرحوم سے اپنے دوستانہ تعلقات کا ذکر فرماتے۔
مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا پیکر کچھ اِس طرح تھا کہ بلند و بالا قد، پُرگوشت و موزوں جسم، متناسب اعضا، کھلتا ہوا گندمی رنگ، باوقار نورانی چہرہ، چوڑی اورکشادہ پیشانی، فراخ اور روشن آنکھیں ، زبان میں شیرینی اور کلام میں تاثیر جو کثرت سے ذکر ِالٰہی کا نتیجہ تھی۔
مولانا اگرچہ پاکستان میں رہے مگراِن کی زندگی کا ابتدائی دورمتحدہ ہندوستان میں گزر۱۔مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب کی ولادت باسعادت کی قطعی تاریخ کا تو علم نہیں ہے۔ ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ء کے قریب موضع رانی ولہ تحصیل ترن تارن ضلع امرتسر میں آپ عدم سے وجود میں تشریف لائے۔سکول میں پرائمری پاس کرنے کے بعد آپ قصبہ ویرووال میں شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ صاحب ویرو والوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لے گئے اور درسِ نظامی کی ابتدائی کتابیں اِنہی سے پڑھیں ۔ مشہور ادیب و خطیب اور طبیب و دانشور مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف رحمۃ اللہ علیہ بھی اِسی دور میں حضرت محدث ویرو والوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تعلیم و تربیت کے مراحل طے فرما رہے تھے۔ مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے ایک دفعہ بتایا کہ حکیم صاحب اگرچہ شروع ہی سے دھان پان اور قد کے اعتبار سے اُن سے چھوٹے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں تاب و توانائی سے