کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 230
یادِ رفتگاں مولانا محمد خالد سیف
اِسلام آباد
آسمانِ خطابت کے درخشندہ ستارے
مولانا غلام اللہ امرتسری لاہوری رحمۃ اللہ علیہ
میری مادرِ علمی جامعہ اہل حدیث، لاہور (مسجد ِقدس چوک دالگراں ) گذشتہ صدی کی پچاسویں اور ساٹھویں دہائی میں علما، خطبا اور دانشوروں کا مرکز و ماویٰ رہی ہے۔میرا تحصیل علم کا دور تو ۱۹۵۹ء تک ہے لیکن اسی برس والد ِگرامی حافظ محمد حسین روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے میرے برادرِ بزرگ حافظ عبد القادرروپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی معیت میں جامعہ اہل حدیث کی نظامت کی ذمہ داری بھی ہمارے سپرد کردی۔انہی برسوں میں جہاں مجھے تدریس کا ابتدائی موقعہ میسر آیا، وہاں ہفت روزہ ’تنظیم اہل حدیث‘ لاہور کی ادارت کی ذمہ داری بھی ملی۔ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی (والد ِگرامی کے برادرِ بزرگ اور میرے اُستاد) مشفقانہ نگرانی کے ساتھ ساتھ میری خصوصی تربیت کا اہتمام فرماتے تھے۔ان سالوں میں برادرِ بزرگ حافظ عبد القادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ اور استادِ محترم محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغ و حج وغیرہ کے سبب بسا اوقات کئی کئی ماہ کی غیر حاضری کی و جہ سے مجھے تن تنہا تعلیمی،صحافتی اور انتظامی ذمہ داریاں انجام دینے کا موقع بھی ملا۔ اس طرح اس دوران بڑے بڑے اہل علم اور مقرر حضرات کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوتا رہا۔ انہی دنوں مولانا غلام اللہ امرتسری مرحوم اس مرکز ِعلمی میں اکثرتشریف لایا کرتے اور خصوصی شفقت فرماتے۔ بعد ازاں زندگی بھر میرا بھی ان سے قلبی تعلق قائم رہا، اگرچہ۱۹۶۵ء میں میرے سعودی عرب (مدینہ یونیورسٹی) چلے جانے اور ان کے لاہور سے تشریف لے جانے کے بعد مسلسل ملاقات تو باقی نہ رہ سکی لیکن وہ جب بھی لاہور آتے توملاقات کا موقع ضرور مل جاتا۔ میں نے ان میں جو خاص مزاج پایا، وہ جماعتی اُلجھاؤ اور کشمکش سے کنارہ کشی کا تھا جو فتنوں میں انسانی شخصیت کو داغدار ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔گویا آپ جامع ترمذی میں مروی اس ارشاد ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مصداق تھے: (( المؤمن غِرٌّ کریم والفاجر خِبٌّ لئیم ))
(حافظ عبد الرحمن مدنی)
سن ِ شعور سنبھالتے ہی جن علما، صلحا اور اہل اللہ کے نہ صرف نام سننے میں آئے بلکہ اِن کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا، اِن میں مولانا غلام اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں ، اِس لئے کہ قیامِ پاکستان کے وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے مولانا غلام اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے چک ۳۶ گ ب ضلع فیصل آباد کو اپنا مسکن بنایا اور یہی گاؤں بندۂ عاجز کا بھی مولد ہے۔