کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 228
’’اے گروہِ قریش! اپنی جانوں کو اللہ سے خرید لو، میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کا م نہ آسکوں گا۔ اے فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے مال سے جو کچھ مانگنا چاہتی ہے، مانگ لے۔ میں اللہ کے ہاں تجھے کفایت نہیں کروں گا۔‘‘
کنز العمال میں بحوالہ طبرانی موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إن أھل بیتي ھؤلاء یرون أنھم أولی الناس بي ولیس کذلک إن أولیائي منکم المتقون من کانوا وحیث کانوا )) (۵۶۵۷)
’’ میرے یہ اہل بیت سمجھتے ہیں کہ وہ سب لوگوں سے بڑھ کر میرے حق دارہیں لیکن بات یوں نہیں ہے، بلکہ میرے حق دار تو متقی لوگ ہیں ، وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی رہتے ہوں ۔‘‘
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا :
’’(اے گروہِ قریش) تم میں سے میرے حق دار وہ ہیں جو متقی ہیں ، اگر تم متقی ہوئے تو فبہا ورنہ دیکھ لو، قیامت کے دن لوگ اعمال لے کر آئے اور تم میرے پاس (دنیا اور گناہوں کا) بوجھ لے کر آئے تو تم سے منہ پھیر لیا جائے گا۔ ‘‘ (کنز العمال :۵۶۵۸،۵۶۵۹)
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
لعمرک ما الا نســان إلا بدینـہ فلا تترک التقویٰ اتکالا علی النسب
لقد رفع الاسلام سلمان فارس وقد وضـع الشرک النسیب أبا لھـب
(جامع العلوم والحکم)
’’ تیری عمر کی قسم! انسان جو کچھ ہے وہ اپنے دین کی وجہ سے ہی ہے۔ لہٰذا نسب پر بھروسہ کر کے تقویٰ کو ہاتھ سے گنوا نہ بیٹھنا۔ دیکھئے !اسلام نے فارس کے سلمان رضی اللہ عنہ کو بلند کر دیا ہے اور شرک نے ابو لہب کو بلند نسب ہونے کے باوجود ذلیل وخوار کر دیا ہے۔‘‘