کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 227
سگا چچا تھا اور زانی و شرابی بھی نہ تھا، اس کے باوجود وہ اہل بیت میں داخل نہ ہوسکا۔ تو بدعمل اور مجہول النسب پیر و پروہت کس طرح اہل بیت میں داخل ہوسکتے ہیں جبکہ ان کے اعما ل میں نیکی او راتباعِ سنت کا بھی نام ونشان نہیں ملتا۔
تیسرا حق: خمس
مغنی لابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ حقوق أہل البیت میں جمہور علماے اُمت کے اقوال سے ثابت کیا گیا ہے کہ بہت سی احادیث ِمبارکہ اور قرآنی آیت کی رُو سے خُمس اہل بیت کا حق ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی ثابت ہے۔ قرآن میں ہے :
﴿وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیئٍ فَأَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَہُ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ﴾ (الانفال :۴۱)
’’اور جان لو! جو چیز تم کو غنیمت میں ملے، اس میں پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی اور قریبی رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے بھی۔‘‘
ان کے علاوہ بھی اہل بیت کے بہت سے حقوق ہیں لیکن ہم پھر گزارش کرتے ہیں کہ ان کے مستحق وہی ہیں جن کا اسلام اور نسب صحیح ہو (یہ شرط نہایت اہم ہے) اور ان کے اعمال سنت ِ مصطفی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مطابق ہوں اور وہ اصحاب رسول کے لیے ان الفاظ سے دعا کرتے ہوں :
﴿رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وِلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا إنَّکَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ﴾
چنانچہ صحیح بخاری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ اِشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللّٰہِ لَا أُغْنِيْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا،یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِيْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا،یَا صَفِیَّۃَ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰهِ ! لَا أُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا،یَا فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سَلِیْنِیْ مِنْ مَالِيْ مَا شِئْتِ لَا أُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا)) (رقم:۲۷۵۳)