کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 225
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ اور (اس کے رسول کا) ساتھ دو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو۔‘‘ اور حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ)) (صحیح بخاری:۱۵) ’’ تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین اور بچوں اور تمام لوگوں سے پیارا نہ ہوجاؤں ۔‘‘ اور جس طرح حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اسی طرح آپ کے اہل بیت سے محبت کرنا بھی فرض ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحِبُّوْکُمْ اللّٰه وَلِقَرَابَتِيْ)) (مسند احمد: ۱/۲۰۸، صحیح بہ تحقیق احمد شاکر) ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! وہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک وہ تم سے اللہ کی خاطر اور میری قرابت داری کی خاطر محبت نہ کریں ۔‘‘ صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے : (( أذکرکم اللہ في أہل بیتي)) (رقم:۲۴۰۸) ’’میں تمہیں اپنے اہل بیت کے سلسلے میں اللہ یاد دلاتا ہوں ۔‘‘ مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ اہل بیت، منفرد اور خصوصی محبت کے حقدار ہیں ۔ دوسرا حق: ان پر درود و سلام بھیجنا امام ابن قیم الجوزیہ دمشقی رحمۃ اللہ علیہ جلاء الإفہام میں بیان کرتے ہیں کہ اس بات پر ائمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ درود اہل بیت کا خاص حق ہے اور اس حق میں اُمت شامل نہیں ہے۔ اور وہ درود جس کے بغیر اہل حدیث کے ہاں کسی آدمی کی نماز مکمل نہیں ہوتی، اس میں آلِ ابراہیم علیہ السلام کی طرح آلِ محمد کا بھی بار بار تذکرہ آیا ہے، چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں حضرت ابومسعود انصاری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا کہ ہم حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی