کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 223
اسے مرتب کیا۔ اور ظاہر ہے کہ پطرس کی زبان بھی یونانی نہیں تھی،بلکہ عبرانی اور آر امی آمیز سریانی ہی تھی تو واضح ہوا کہ متی اور مرقس کے صحیفے یونانی زبان میں نہیں لکھے گئے۔ نیز اردو دائرہ معارف اسلامی کے مقالہ نگار نے The Birth of Chri, Alfred Loisey Religion ص ۳۶۶ تعلیقہ ۶۰ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ یوحنا کی انجیل آرامی میں تحریر تھی ۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا ۳/۵۲۴ کے مقالہ نگار کے مطابق اناجیل کے مآخذ کی بحث میں جو اکثر Qکا ذکرآتا ہے ،اس کے بارے میں F.C.Burkitt نے بڑی دانشمندی سے اس امکان کا اظہار کیا ہے کہ Q کا اصل نسخہ آرامی زبان میں تھا۔ نیز اس نے یہ لکھا ہے کہ ’محرف مسیحی ادب‘ میں ایک انجیل یہودیہہے،یہ مغربی آرامی زبان میں تھی اور یہ انجیل مسیحیوں کے ابتدائی فرقوں میں سے ناصریوں اور ابیاتیوں میں دوسری صدی کے نصف ۱۵۰ء تک رائج رہی،بعد میں ان فرقوں کی تباہی کے ساتھ یہ انجیل بھی گم ہو گئی۔اور یونانی تراجم کی ابتدا یقینا اس کے بعد ہوئی ۔ (تفصیل: Procryphal Literature زیر مادہ Echp-brit) ’اشراق ‘کے مضمون نگار کی تردید اس حقیقت سے بھی ہوتی ہے کہ آج سے تقریباً تین سو سال قبل انجیل برنا باس کا جو نسخہ دریافت ہوا ، وہ اطالوی زبان میں تھا اور اس کے اوپر لکھا ہوا تھا کہ یہ برناباس حواری کی لکھی ہوئی انجیل ہے۔مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ’عیسائیت کیا ہے؟‘(ص ۱۷۱ تا ۱۹۲)میں تفصیل سے اس انجیل کا تعارف پیش کیا ہے اور ثابت کیاہے کہ اس انجیل کا درجہ اسناد بائبل کے کسی بھی صحیفے سے کم نہیں ہے۔ یہ انجیل حضرات عیسی علیہ السلام کے بعد ابتدائی دور کی ہے اور یونانی تراجم کی ابتدا یقینا اس کے بعد ہوئی ہے ۔ اگرچہ بعض لوگوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ عہد نامہ جدید کے جو قدیم ترین اجزا اب تک دستیاب ہوئے ہیں ، وہ یونانی زبان میں ہیں ۔اگر اس دعویٰ کو درست تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس سے یہ مطلب کشید کر لیناکہ ’’حضرت عیسی علیہ السلام کے جوارشادات انجیلوں اور دیگر تحریروں میں درج ہیں ۔ ۔ ۔ (ان کے لکھے جانے کی)ابتدا ہی یونانی ترجمہ سے ہوئی۔‘‘ قطعاً درست نہیں ہے،بلکہ مذکورہ دلائل کی روشنی میں اس بات کا واضح امکان موجود ہے کہ اصل اناجیل ضائع ہو گئیں اور موجودہ یونانی نسخے ان کا ترجمہ یا ترجمہ درترجمہ ہیں ، نیز برناباس حواری کی انجیل کی دستیابی ہی اشراق کے مضمون نگار دعویٰ کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہے !!