کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 222
سیاہ کر دیے ہیں ، اگر وہ اس سلسلہ میں کوئی ایک مستند حوالہ یا کوئی ٹھوس تاریخی ثبوت پیش کر دیتے تو قارئین کے لیے تحقیق کی راہ آسان ہو جاتی۔ ٭ اس کے علاوہ غوری صاحب کا مولانا مدنی کو علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ پر اندھا اعتماد کرنے کا طعنہ دینا بھی درست نہیں ہے،کیونکہ مولانا سے جو سوال کیا گیا تھا، وہ محض اسی قدر تھا کہ ’’کیا سریانی نام کی کسی زبان کا وجود ہے ؟‘‘ اور اس سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت سے استدلال کرکے بتایا کہ کہ ہاں سریانی زبان کا وجود ہے۔ اس حد تک آپ کو بھی اختلاف نہیں ہے ۔مولانا کے پیش نظر یہ تحقیق ذکرکرناتھا ہی نہیں کہ انجیل کی زبان کیا تھی ؟پھراُنہیں متعلقہ کتب یا اہل علم سے رجوع کا مشورہ چہ معنی دارد۔اس نوعیت کے سوال جوا ب سے ایک نئی بحث کا آغاز کرلینا جو سائل کا مطلوب ومقصود بھی نہیں ، اشراق کے تحقیق کار کا عجب طرزِ عمل ہے! ٭ اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ غوری صاحب نے اس مسئلہ پر دلائل دینے کی بجائے بات کو مزید آگے پھیلاتے ہوئے سارا زورِ تحقیق اس بات پر صرف کر دیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے جو ارشادات بائبل کے عہد نامہ جدید کی چاروں انجیلوں اور دیگر تحریروں میں درج ہیں ، وہ کبھی بھی اپنی اصلی حالت میں نہیں لکھے گئے تھے ۔ ۔ ۔ ان کی ابتد ہی یونانی ترجمہ سے ہوئی ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ __ حالانکہ نہ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بحث کو چھیڑا ہے اور نہ مولانا مدنی نے اس طرف کوئی اشارہ کیا ہے اور پھریہاں بھی وہی بے لچک اور غیر معروضی انداز ِتحقیق جیسے یہ ایک ’مسلَّمہ حقیقت‘ہے اور اس میں کسی دوسری رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب ہم اس بات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں کہ ان کا یہ دعویٰ کس حد درست ہے کہ اناجیل ابتدا ہی سے یونانی زبان میں لکھی گئی تھیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا ان کے حواری اور ابتدائی متبعین یونانی زبان جانتے تھے۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ کے مقالہ نگارنے Jewish Ency ۹/۲۴۷ کے حوالہ سے ذکر کیا ہے کہ Papiasجو دوسری صدی میلادی کے اوائل کا ماخذ ہے، بتاتا ہے کہ متی نے مسیح کے ملفوظات کا مجموعہ کسی تاریخی ترتیب کے بغیر عبرانی (یا آرامی) زبان میں تیار کیا تھا اور مرقس نے متفرق طور پر پطرس حواری سے جو کچھ سنا تھا،