کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 221
ثقافتی زبان کے طور پر اختیار کیا تھا ۔اورآرامی زبان تو بازنطینی حکومت کی زبان تھی اور جسے عیسائی دنیا اپنے مذہب و ثقافت کے لئے خطرہ سمجھ کر تر ک کر رہی تھی، اسی زبان میں ان کی مذہبی کتاب انجیل کا نازل ہونا انتہائی تعجب خیز معلوم ہوتاہے۔ انجیل جو عیسائی مذہب و ثقافت کا مصدر وماخذ تھی، اگر آرامی زبان میں نازل ہوئی ہوتی تو عیسائی دنیا کبھی اس کے اثرات سے اپنے مذہب کو بچانے کی فکر نہ کرتی، بلکہ اسے مقدس سمجھ کر بامِ عروج تک پہنچاتی۔ توخود اشراق کے مضمون نگار کی مذکورہ عبارت سے خود پتہ چلتا ہے کہ انجیل کی اصل زبان آرامی نہیں ، بلکہ سریانی تھی۔
٭ چنانچہ صحیح بخاری کے شارح بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے واضح طور پر انجیل کی زبان کو سریانی قرار دیا ہے ،لکھتے ہیں : لیس کذلک بل التوراۃ عبرانیۃ والإنجیل سریاني۔
٭ اس کے علاوہ مغربی مفکر Renenمولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور اُردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار کی عبارات بھی اسی موقف کی ہم نوائی کر رہی ہیں ۔ اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ مسیحی سوسائٹی Watch Tower کی مطبوعہ بائبل،طبع نیویار ک کے دیباچے(ص viii)میں بھی مذکور ہے کہ ’’اصل انجیل سریانی زبان میں تھی۔‘‘
افسوس! اگرالمورد کے محترم فیلو نے ’’کسی متعلقہ صاحب ِعلم یا متعلقہ کتب سے رجوع‘‘ کیا ہوتا جو شاید ’’اتنا دشوارنہ تھا‘‘ تو وہ ہرگز ’’علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے فاضل محقق ‘‘کے اس جملے کہ انجیل سریانی زبان میں تھی کو’’سرا سر غلط‘‘ قرار نہ دیتے اور نہ ہی اس قدرعلمی تفوق اور احساسِ برتری سے لبریز لب ولہجہ میں علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا مدنی کو متعلقہ صاحب ِعلم یا متعلقہ کتب سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے۔
ایک ایسا مسئلہ جو متعلقہ اہل علم کے درمیان بھی اختلافی ہے اور کوئی ایسا ٹھوس تاریخی ثبوت یا دستاویز بھی موجود نہیں جس سے ثابت ہو کہ انجیل کی اصل زبان آرامی تھی، کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنا اور مخالف کی رائے کو سراسر غلط قرار دینا انتہائی غیر معروضی اندازِ تحقیق ہے جو استشراقیت و جدت کے علمبردار ’المورد ‘کے ’علما‘ کو ہی لائق ہے۔
٭ پھرافسوسناک امر یہ ہے کہ مقالہ نگار نے اپنی ’’اس تحریر کوجان بوجھ کر حوالوں سے گرانبار ‘‘کرنا تو مناسب نہیں سمجھا لیکن طنز و تعلّی اور اِدھر اُدھر کی باتوں میں تین چار صفحات