کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 220
ہے۔ اورخود المورد کے فیلونے بھی تسلیم کیا ہے کہ ’’ارامی ایک وسیع زبان ہے ۔ ۔ ۔ سریانی درحقیقت آرامی کی ذیلی بولی Dialect))ہے۔‘‘
٭ نیز انجیل کی زبان آرامی اس لئے بھی نہیں ہو سکتی کہ یہ خالص غیر اسرائیلیوں کی زبان تھی جسے ایرانی بادشاہCyprusنے ان پر مسلط کر دیا تھا۔ اسرائیلی اس مسلط کردہ زبان کو اپنی مذہبی زبان کے طور پرقطعاً قبول نہیں کر سکتے تھے، لہٰذا اس زبان کو انجیل اور حضرت عیسیٰ کی مذہبی زبان بنایاجانا قرین قیاس معلوم نہیں ہوتا۔اور جن لوگوں نے اسے آرامی قراردیا ہے،اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہےکہ بعد میں سریانی زبان آرامی کی ذیلی بولی یا اس کی شاخ کے طور پر معروف ہو گئی تھی اور بعض لوگوں نے اس شاخ کو اصل سے تعبیر کر دیا۔ شاید محکومیت کا اثرتھا کہ سریانی اپنا الگ تشخص قائم نہ کر سکی۔
٭ حقیقت یہ ہے کہ سریانی اس دور کی اُبھرتی ہوئی زبان تھی۔ پھر بعد میں انجیل کے اس زبان میں نازل ہونے کی وجہ سے اسے مسیحیوں کی مذہبی زبان کی حیثیت بھی حاصل ہوگئی، جس کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد تک یہ ارضِ مقدس کے تمام علاقوں کی روز مرہ،بول چال اور عوامی رابطوں کی زبان بن چکی تھی۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عیسائی وفود آتے تو ان سے گفتگو اور تبلیغ میں مشکل پیش آتی جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو سریانی سیکھنے کا حکم فرمایا ۔ تو گویا سریانی زبان کے ان علاقوں میں پھیل جانے کے پیچھے بنیادی محرک یہی تھا کہ یہی انجیل کی اصل زبان تھی اور عیسائیوں کی مذہبی زبان کی حیثیت اختیار کر گئی تھی، جیساکہ خود ’اشراق‘ کے مضمون نگار نے بھی لکھا ہے کہ
’’یہ (سریانی ) اس علاقے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد سے پہلے بھی رائج تھی۔۴۵۱ء کی کونسل کے مباحث کے بعد ارامی بولنے والے اکثرو بیشتر مسیحیوں نے سریانی کو اپنی کلیسائی اور ثقافتی زبان کے طور پر اختیار کر لیا، اس سے ان کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے مذہب و ثقافت کو بازنطینی اثرات سے بچا سکیں ۔‘‘
٭ یہاں سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیحیوں کو اپنے مذہب و ثقافت کو بازنطینی اثرات سے بچانے کی فکر آخر کیوں دامن گیر ہوئی ؟ اس کی وجہ یقینا یہی تھی کہ مسیحیوں کا مذہبی اور ثقافتی ورثہ (انجیل) سریانی زبان میں تھا ، اسی لئے ہی تو انہوں نے سریانی زبان کو اپنی کلیسائی اور