کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 219
اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’نصرانیت؛ قرآن کی روشنی میں ‘ ص۹۲ پر صاف لکھا ہے کہ ’’حضرت عیسیٰ اور ان کے تمام حواریوں کی زبان سریانی تھی۔‘‘
مذکورہ وضاحت کی روشنی میں انجیل کی اصل زبان کے متعلق پانچ آراء ہمارے سامنے آتی ہیں : عبرانی، سریانی، عبرانی آمیز سریانی ، آرامی یا آرامی کی کوئی شاخ ۔ ان مختلف آرا سے کم از کم یہ بات توواضح ہو جاتی ہے کہ انجیل کی زبان کو آرامی قرار دینے کا جو بلند وبانگ دعویٰ کیاگیا ہے، وہ کوئی مسلمہ حقیقت نہیں رکھتا۔
٭ اب ہم یہ جائزہ لیں گے کہ ان میں سے کونسی رائے دلائل کی رو سے زیادہ قرین قیاس ہے؟
اس سلسلہ میں جب ہم زبانوں کی تاریخ اور ان مذکورہ آرا کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو اصل انجیل کا آرامی زبان میں ہونے کا دعویٰ کسی طور بھی درست اور تاریخی تناظر سے ہم آہنگ معلوم نہیں ہوتا۔اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیلیوں کی اصل مادری اور مذہبی زبان عبرانی تھی۔اور آرامی ایک شمال مغربی سامی Semtic زبان تھی جو عبرانی سے بہت مماثلت رکھتی ہے۔جب ایرانی شہنشاہ Cyprusنے بابلی سلطنت پر قبضہ کر لیا تو آرامی زبان کوان اسرائیلوں پر سرکاری زبان کے طور پر رائج کر دیا اور پھر آرامی زبان ان میں اس طرح رچ بس گئی کہ فلسطین کے علاقے یہودیہ Judaeaمیں تویہ تقریباً ۷۰۰ سو سال تک یہودیوں کی مقامی روز مرہ کی زبان رہی اور یہودی فقہ تالمود کی بعض کتابیں بھی آرامی زبان میں لکھی گئی تھیں ۔
جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ اسرائیلیوں کی اصل مادری اور مذہبی زبان عبرانی تھی۔ پھر جب ایرانی شہنشاہ Cyprusکے بابلی سلطنت پر تسلط کی وجہ سے آرامی زبان کو سرکاری سر پرستی میں ان پر نافذکر دیا گیا تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ محکوم عبرانی زبان اس بیرونی آرامی زبان کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتی تھی ۔ تویوں معلوم ہوتا ہے کہ عبرانی اور آرامی زبان کے اس باہم امتزاج سے سریانی زبان پروان چڑھی اور حضرت عیسیٰ کی آمد سے پہلے اسرائیلیوں میں رائج ہو گئی اور بعد میں آرامی کی ایک شاخ کے طور پر متعارف ہوئی۔
تاریخ کے اس تناظر میں غور کرنے سے پتہ چلتاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے حواریوں کی مادری زبان نہ تو خالص عبرانی تھی اور نہ ہی آرامی،بلکہ وہ عبرانی اور آرامی آمیز سریانی تھی اور یہی درحقیقت انجیل کی اصل زبان تھی جسے Renenنے عبرانی آمیز سریانی سے تعبیر کیا