کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 218
موجود نہیں ہے۔ اب یہ سوال کہ اُس اصل انجیل کی زبان کیاتھی؟
اس بارے میں اس حد تک تو واضح ہے کہ انجیل کی اصل زبان وہی تھی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی زبان تھی ،جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُوْل إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہ﴾لیکن حضرت عیسیٰ اور ان کی قوم کی زبان کیمتعلق کوئی حتمی فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ اصل انجیل اب دنیا کے نقشہ پر موجود نہیں ہے، نہ ہی کوئی ایسا ٹھوس تاریخی ثبوت یا دستاویز موجود ہے جس سے حضرت عیسیٰ اور ان کی قوم کی زبان کا حتمی تعین کیا جا سکے۔ اس حوالہ سے اگر ہمارے پاس کچھ ہے تو وہ صرف بعض مغربی ماہرین اورمسلم محققین کی آرا ہیں جن میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے ۔
٭ ذیل میں اختصار کے ساتھ ان اختلافی آرا کا تذکرہ مناسب معلو م ہوتا ہے :
انسا ئیکلوپیڈیا برٹانیکا(۱۹۵۰ء ،۳/۵۲۲)میں ہے کہ ’’مسیح اور آپ کے حواری نسلاً اور مذہبا ًاسرائیلی تھے اور ان کی مادری ومذہبی زبان عبرانی تھی یا مغربی آرامی۔ ‘‘Jesus)،ص:۴۸) __امریکہ کے یونین کالج میں عبرانی کے پروفیسرMossButtenwieserکے بقول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں آرامی زبان بولی جاتی تھی __ مغربی مفکر Renenکے نزدیک حضرت عیسیٰکی مادری، مذہبی اور وطنی زبان عبرانی آمیز سریانی تھی۔
نیز اُردو دائرہ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی) کے مقالہ نگارنے مادّہ إنجیل کے تحت لکھا ہے کہ انجیل کی زبان آرامی یا آرامی کی کوئی شاخ تھی۔علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کی حدیث کے الفاظ : کان ورقۃ بن نوفل یکتب الکتاب فیکتب من الإنجیل بالعبرانیۃ کے تحت لکھا ہے کہ
قال التیمي: الکلام العبراني ہوالذي أُنزل بہ جمیع الکتب کالتوراۃ والإنجیل ونحوہما وقال الکرماني: فُہِم منہ أنَّ الإنجیل عبراني،قلت : لیس کذلک،بل التوراۃ عبرانیۃ والإنجیل سریاني (عمدۃ القاری: ۱/۵۲)
’’امام تیمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عبرانی وہ کلام (زبان) ہے جس میں تورات،انجیل وغیرہ کتب کو نازل کیا گیا تھا۔ امام کرمانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس سے سمجھ آتا ہے کہ انجیل عبرانی زبان میں تھی۔ میں کہتا ہوں کہ یہ بات درست نہیں بلکہ تورات عبرانی میں تھی اور انجیل سریانی زبان میں تھی۔‘‘