کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 217
تحقیق و تنقید محمد اسلم صدیق انجیل کی زبان؛ ایک ناقدانہ جائزہ ماہنامہ ’الاعتصام‘ (۲تا ۸/ ستمبر۲۰۰۵ء )میں ایک سوال کے جواب میں حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب نے علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے سریانی زبان کے وجود کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ ’’انجیل سریانی زبان میں تھی۔‘‘ جس پر المَورد کے ریسرچ فیلو عبدالستار غوری صاحب نے ماہنامہ ’اشراق‘ (دسمبر ۲۰۰۵ء )میں اس موقف کی تردید کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ’’انجیل ابتدا ہی سے یونانی (Greek)زبان میں لکھی گئی تھی جبکہ حضرت مسیح کی زبان ارامی Aramaicتھی۔ اور اُنہوں نے اپنے مواعظ و بشارات اسی ارامی زبان میں ارشاد فرمائے تھے، لیکن ان کے جو ارشادات بائبل کے عہد نامہ جدید کی چاروں انجیلوں اور دیگر تحریروں میں درج ہیں ، وہ کبھی بھی اپنی اصلی حالت میں نہیں لکھے گئے تھے ۔ ۔ ۔ وہ شروع ہی سے یونانی زبان میں لکھے گئے تھے ۔‘‘ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ ’’جہاں تک دوسرے حصے کا تعلق ہے کہ انجیل سریانی زبان میں تھی تو یہ بات سرا سر غلط ہے۔‘‘ (صفحہ۴۳ ) زیر نظر سطور میں ہم پہلے اس بات کا جائزہ لیں کے کہ کیا واقعی انجیل کی اصل زبان آرامی تھی ؟اور پھر بتائیں گے کہ اناجیل کا سب سے پہلے یونانی زبان میں لکھے جانے کا دعویٰ کس حد تک درست ہے ؟ علمی دنیا میں یہ امرکسی سے مخفی نہیں کہ جس انجیل کا ذکر قرآن مجید کے تقریباً ۱۲ مقامات پر ہوا ہے، اس سے مراد وہ اصل کتاب یا الٰہی احکام ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بذریعہ وحی نازل ہوئے تھے اور عہد نامہ جدید (New Testament)کی اناجیل کے فرضی مجموعے، وہ انجیل نہیں ہے جس کا ذکر قرآن میں ہوا ہے۔ یہ انجیل اس وقت اپنی اصل شکل میں دنیا میں کہیں