کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 216
صبروثبات، یہ تھا معتزلہ کے زوال و انحطاط کااصل سبب جس کا آخری نتیجہ یہ تھا کہ وہ صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ یہ سبب ِاصلی بھی کسی تاریخی کتاب سے پیش کرنے کی بجائے طلوعِ اسلام ہی سے پیش کرنا مناسب ہے :
’’احمد بن ابی داؤد اور ثمامہ نے یہ بڑی سیاسی غلطی کی کہ مسلک ِاعتزال کو سرکاری سرپرستی میں دے دیا۔ مامون الرشید، معتصم باﷲ اور واثق باﷲ نے مسلک ِاعتزال کو قبول کرکے جبرواکراہ سے اس مسلک کو عوام میں پھیلانے کی کوششیں شروع کردیں ، اس کے لئے تشدد اور سختیاں شروع ہوئیں تو جس نے بھی اس تشدد کے مقابلہ میں ثابت قدمی کا ثبوت دیا وہ عوام میں ہیرو بن گیا۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر عباسی خلفا مسلک ِاعتزال کو قبول نہ کرتے تو اعتزال کے مسلک پر ان کا یہ بڑا ہی احسان ہوتا یا اگر اُنہوں نے اس مسلک کو قبول کرلیا تھا تو اسے بنوکِ شمشیر عوام سے منوانے کی کوشش نہ کرتے تو معتزلہ اس تباہی سے یقینا محفوظ رہتے جس سے اُنہیں آگے چل کر دوچار ہونا پڑا۔ معتزلہ نے اپنی اس سیاسی غلطی کو بروقت محسوس نہ کیا۔ یہ محدثین و فقہا کے خلاف کفروشرک کا فتویٰ دیتے تھے اور برسراقتدار طبقہ ان علماو مشائخ کو دارو رَسن کی مشقتوں میں مبتلا کرکے عوام میں ان کو ہیرو بنا دینے پر اپنی تمام کوششیں صرف کررہا تھا۔‘‘[1]
لیکن کیا آج کے معتزلہ اور تحریک ِطلوع اسلام نے اپنے پیشرو معتزلہ سے کوئی سبق سیکھا؟ ہرگز نہیں ،کیونکہ جہاں اخلاص نہ ہو، دنیاے دنی کی محبت ہو اور کسی تحریک کا بانی اور لیڈر خود نظامِ طاغوت کی سرکاری مشینری کے کل پرزہ کی حیثیت سے روٹی کا غلام بن رہا ہو اور اپنے مخالفین پر منکرین ِقرآن اور منافق ہونے کا فتویٰ لگا رہا ہو اور ہر صاحب ِاقتدار سے اچھے مراسم ہر دور میں قائم رکھتا ہو اور اپنے مخالفین کے خلاف حکومت کو مشورے دے رہا ہو، اور ماضی کے معتزلہ کے نقش قدم پر چل کر غیر اسلامی تصورات کو قرآن میں سمو ڈالنے کی کوشش میں جتا ہو اور اپنے کنونشنوں میں وزرا کو اور اربابِ اقتدار کو کرسئ صدارت پر بٹھاتا ہو، اور اشتراکی ممالک کے سفیروں سے ملاقات کا حریص ہو، وہ ’مفکر ِقرآن‘ اگر یہ کچھ نہ کرے تو آخر اور کیا کرے ؟