کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 215
بھی اس اعزاز و اکرام سے محروم رہے۔ یہ ہے تصویر کا دوسرا رُخ کہ اربابِ اقتدار سے ملی بھگت اور ’شریفانہ معاہدہ‘ کرنے اور سرکاری مناصب پانے والے، دراصل وہ ’اربابِ فکرونظر‘ اور ’صاحبانِ عقل و بصیرت‘ تھے جو ’یونانی فلسفہ کو اسلامی عقائد میں سمو ڈالنے‘ کی کوششوں میں جُتے رہے تھے۔ اور جو آج کے منکرین حدیث کے فکری آباء و اجداد تھے نہ کہ وہ علما و فقہا اور محدثین و مجتہدین جو پابند سلاسل رہ کر، قید و بند کی اذیتیں جھیلتے ہوئے اور ضربِ تازیانہ کا نشانہ بنتے ہوئے، حکومتی مناصب اور سرکاری وظائف سے بے نیاز ہوکر، خدمت ِدین اور اشاعت ِاسلام پر کمربستہ رہے اور یہی کذب ِپرویز کی تصویر کا دوسرا رخ ہے جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ’مفکر قرآن‘ تنکیس واقعات، تقلیب ِاُمور اور مسخ حقائق میں کس قدر جھوٹ اور دیدہ دلیری سے کام لیا کرتے تھے۔ وہ ائمہ اور علما جو سیاسی فرمانرواؤں سے الگ رہے، ان پر یہ الزام عائد کیا کہ ان کی ہمیشہ اربابِ اقتدار سے ملی بھگت رہی ہے اور جو فی الواقعہ اقتدار کی چھتری تلے بیٹھ کر، علما و ائمہ پر کفر و شرک سے فتوے لگا کر اربابِ اقتدار کو ان کے خاتمہ پر اکساتے رہے وہ ’اہل عقل و بصیرت ‘اور ’اصحابِ فکر و نظر‘قرار پائے۔ ع جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے! سبب زوال معتزلہ:سرکاری سرپرستی میں شجر اسلام پر پھیلنے والی اس اکاس بیل کا خاتمہ کیسے ہوا؟ پرویز صاحب حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے یہ بے پَرکی اڑاتے ہیں کہ__ ’’ان اصحابِ فکرونظر کا خاتمہ مذہبی پیشوائیت نے کیا۔‘‘حالانکہ ان کے زوال بلکہ خاتمہ کا سبب، خود ان کی یہ حرکت تھی کہ وہ آفتابِ اقتدار کے پجاری بنے، اربابِ اقتدار کی کاسہ لیسی کی، سرکاری مناصب پر براجمان ہوکر اپنے کفرو شرک کے فتوؤں کے ذریعہ خون کی ندیاں بہائیں ، مخالفین کو قیدوبند کی صعوبتوں میں پھانسا اور اہل علم اور ائمہ عظام کو کو ڑوں سے پٹوایا جس کے نتیجہ میں عوام ان سے متنفر ہوئے اور ان علما و ائمہ کی عقیدت و محبت أضعافًا مضاعفۃ ہوکر لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوگئی۔ ایک طرف معتزلہ کی دنیاے دنی کی ہوس تھی، اور دوسری طرف اہل علم کی مسلک ِحق پر اذیتوں اور صعوبتوں کے باوجود ثابت قدمی اور اخلاص کی دولت تھی۔ معتزلہ کی ان حرکات سے نفرتِ عامہ اور مسلم فقہا و علما کا مصائب پر اعلیٰ درجے کا