کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 214
لگی تو وہ پورے عالم اسلام پر چھا گیا۔ عدالتوں میں فیصلے اسی مسلک کے مطابق ہونے لگے، جو لوگ اس مسلک کے خلاف زبان ہلاتے تھے، ان سے حکومت ِوقت کی طرف سے باقاعدہ باز پرس کی جاتی تھی اور سزائیں دی جاتی تھیں ۔‘‘[1]
کم ظرف لوگوں کو اقتدار کا سہارا مل جائے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ، چنانچہ معتزلہ کو جو اقتدار کی پشت پناہی حاصل ہوئی، تو اُنہوں نے ٹھیک وہی حرکت کی جسے ’مفکر قرآن‘ صاحب بہتاناً ’مذہبی پیشوائیت‘ اور ’ملاازم‘ کی خود ساختہ اصطلاحات کے تحت علماے کرام کی طرف منسوب کرنے کے عادی رہے ہیں ، یعنی فتویٰ بازی :
’’خلق قرآن کا مسئلہ معتزلہ کو جعد بن درہم ہی سے وراثت ملا، پہلے معتزلہ اس نظریہ کے قائل نہیں تھے، لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ قرآن کے مخلوق ہونے پر متفق ہوگئے اور جو شخص قرآن کو غیر مخلوق کہتا تھا اس پر کفر اور فسق کے فتوے لگاتے تھے۔ معتزلہ میں احمد بن ابی داؤد پہلا معتزلی ہے جس نے قرآن کو غیر مخلوق کہنے والوں پر کفر کا فتویٰ لگایا۔‘‘[2]
اس کے بعد معتزلہ کی ’مذہبی پیشوائیت‘ اور ’تھیاکریسی‘ نے اگلا قدم اُٹھایا۔ وہ کیا تھا؟ ملاحظہ فرمائیے :
’’اُنہوں نے کہا کہ خلیفہ اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے عقیدہ کو جو توحید کے خلاف ہے، قوت سے مٹائے۔‘‘[3]
پھر کیا ہوا؟ … طلوع اسلالم ہی کی زبانی ملاحظہ فرمائیے:
’’اس عقیدہ کی پُشت پر چونکہ حکومت ِوقت بھی تھی، اس لئے لوگوں کو صرف کفروشرک کے فتوؤں ہی سے مرعوب نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ان فتوؤں کے بعد لوگوں کو طرح طرح کی سزائیں بھی دی جاتی تھیں اور قتل بھی کردیا جاتا تھا۔‘‘[4]
وہ علما جو اپنے عقائد پر ثابت قدم رہے، اور جن میں امام احمد بن حنبل سب سے زیادہ مشہور ہیں ۔ اُنہیں للہ في اللہ یہ صعوبتیں برداشت کرنے کے نتیجہ میں ، اللہ تعالیٰ نے ایسی قدرو منزلت سے نوازا کہ معتزلہ، سرکاری سرپرستی کے باوجود اپنے انتہائی عروج کے زمانہ میں