کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 213
’’ہمارے متقدمین میں معتزلہ اہل علم کا وہ گروہ تھا جن کی نگاہ صحیح اسلام پر تھی اور وہ قرآنِ مجید پر عقل و بصیرت کی رو سے غور کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو ہماری مذہبی پیشوائیت کس طرح جینے دیتی۔ نتیجہ یہ کہ نہ صرف ان اربابِ فکرونظر کا خاتمہ کردیا گیا، بلکہ ان کے علمی کارناموں کو بھی جلا کر راکھ کردیا۔‘‘ [1] جملہ معترضہ:قبل اس کے کہ اس بحث میں پیش قدمی ہو، قارئین کرام سے یہ درخواست ہے کہ ’مفکر ِقرآن‘، ’مدرسِ فرقان‘ اور ’مفسر ِکتاب‘ جناب چوہدری غلام احمد پرویز صاحب کے اس جھوٹ کو خاص طور پر نگاہ میں رکھیں کہ __’’مذہبی پیشوائیت نے معتزلہ کو جینے نہیں دیا، اور خود ان کا اور ان کے علمی کارناموں کا خاتمہ کرڈالا۔‘‘ آگے چل کر طلوعِ اسلام ہی کی عبارت سے، اس جھوٹ کا جھوٹ ہونا واضح ہورہا ہے، نیز یہ بھی کہ معتزلہ کو کسی ’مذہبی پیشوائیت ‘ نے نہیں ، بلکہ خود ان کی اپنی کرتوتوں نے صفحۂ ہستی سے مٹادیا تھا۔ اس جملہ معترضہ کے بعد، اب یہ دیکھئے کہ فتنۂ اعتزال کو ماضی میں عروج کیسے ہوا؟ اس طرح کہ فتنۂ اعتزالی کے علمبرداروں میں سے دو ’دانشوروں ‘ احمد بن ابی داؤد اور ثمامہ نے کسی نہ کسی طرح اربابِ اقتدار تک رسائی پالی اور اُنہیں اپنا ہم خیال بنا لیا، جس کے نتیجہ میں اس فتنہ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی۔ حکومتی اثرورسوخ اور ذرائع و وسائل سے اس کا حلقۂ اثر پھیلتا چلا گیا، انتظامیہ اور عدلیہ کے اعلیٰ مناصب کے دروازے معتزلہ پر چوپٹ کھول دیے گئے اور جو لوگ اس مسلک کے خلاف تھے، ان سے حکومت ِوقت بڑے جابرانہ اور ظالمانہ انداز سے نپٹتی اور اُنہیں قید و بند سے لے کر، دار و رسن کی صعوبتوں میں سے گزرنا پڑتا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار طلوعِ اسلام بھی نہیں کرسکا : ’’احمد بن ابی داؤد اور ثمامہ کی کوششوں سے مامون الرشید نے باقاعدہ طور پر اس مسلک کو قبول کرلیا اور مسلک ِاعتزال کو سرکاری سرپرستی میں لے لیا۔ اس سے وقتی طور پرمسلک اعتزال کو بہت مقبولیت حاصل ہوگئی۔ الناس علیٰ دین ملوکھم کے مطابق، ہر طرف مسلک ِاعتزال کا چرچا ہونے لگا۔ ان کا مسلک چونکہ عقل و بصیرت پر مبنی تھا، اس لئے وہ خود بھی لوگوں کو اپیل کرتا تھا، اس کے ساتھ ہی سرکاری مشینری بھی اس کی تائید میں حرکت کرنے