کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 209
منکرین حدیث کے نزدیک وہ خیال ہے جسے ’مفکر ِقرآن‘ صاحب قرآن کے گلے مڑھ دیں ۔ اس لئے میں مجبور ہوں کہ کتب ِتاریخ سے مواد پیش کرنے کی بجائے طلوعِ اسلام کے لٹریچر ہی سے، چند واقعات پیش کردوں جن سے ’مفکر ِقرآن‘ کے جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے :
پہلا اقتباس:سب سے پہلے مندرجہ ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیے اور خود سوچئے کہ محدثین ومتکلمین اور علما و فقہا اربابِ اقتدار سے مالی وظائف قبول کرتے ہوئے، ملوکیت کے پشتیبان بنتے رہے ہیں ؟ یا خالص اور صحیح اسلام پیش کرنے کے لئے تحریکیں چلاتے رہے ہیں ، اور یہ کسی ایک عصر و مصر تک محدود معاملہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی تاریخ کا دائمی اور مستقل معاملہ ہے :
’’مسلمانوں کی تاریخ میں افراط و تفریط کے خلاف خالص اور صحیح اسلام پیش کرنے کے لئے ہر دور میں قلندرانہ تحریکات چلتی رہی ہیں ۔ محدثین و متکلمین کی آویزش، اور ازاں بعد، متکلمین کی باہمی سرپھٹول، مامون الرشید عباسی کے دور میں فتنۂ خلق ِقرآن اوراس طوفان میں امام احمد بن حنبل کا محیرالعقول عزم و ثبات، اس کے بعد منطق و علم کلام کے غیر اسلامی اثرات کو کالعدم ٹھہرانے کے لئے علامہ ابن تیمیہ کی مبارک تحریک، نجد میں وہابی تحریک کا آغاز، افریقہ میں مہدئ سوڈانی اور شیخ سنوسی کی سرگرمیاں ، ہندوستان میں حضرت مجدد الف ِثانی کا غیر اسلامی تصورات کے خلاف مسلسل و پیہم جہاد، اور حضرت علامہ سید جمال الدین افغانی کی تحریک ِاتحادِ عالم اسلام (Pan-Islamism) وغیرہ اس دعویٰ کا زندہ ثبوت ہیں کہ ہر آڑے وقت میں مسلمانوں کے اندر ایک ذہنی انقلاب کی رو تیز گام رہی ہے۔‘‘[1]
دوسرا اقتباس: اب دوسرے اقتباس میں یہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے کہ ائمہ و علما (جنہیں پرویز صاحب بڑی حقارت و نفرت کے ساتھ ملاّ ازم، مذہبی پیشوائیت اور تھیا کریسی کے لیبل کے تحت مرتے دم تک مطعون کرتے رہے ہیں ، اُنہوں نے )حکومتی استبداد کے سامنے سرجھکا کر ان سے وظائف حاصل کرتے ہوئے انہیں ’امام المسلمین‘ اور ’ظل اللہ‘ کہا تھا یا ان کے زیر عتاب رہ کر فریضہ حق گوئی ادا کیا تھا۔ ان دینی پیشواؤں میں سے امام احمد بن حنبل کا کردار ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے :
’’مامون الرشید کے عہد میں حالات نے پلٹا کھایا، اور وہ خود اور اس کے درباری، قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل ہوگئے، اب محدثین پر کفر کے فتوے لگنے شروع ہوگئے اور وہ جرمِ