کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 205
بس! اب آنکھیں بند کرتے ہوئے مغرب کی تقلید کرتے جائیے، یہی ’اتباع قرآن‘ ہے۔ یہی ’تمسک بالکتاب‘ ہے، یہی ’روشن خیالی‘ ہے، اور یہی ’عقل و فکر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ‘ روش ہے۔ مولوی حضرات کا پیچھا چھوڑیے ورنہ تمہیں اُن ’اَغلال و اِصر‘ کا بھاری بوجھ اُٹھانا پڑے گا جو قرآن و سنت پر مبنی ’عجمی اسلام‘ کا لازمہ ہیں ۔ 7. ’’ مُلاّ کا نظریہ یہ ہے کہ اسلام ایک جامد (Static) اور متصلب(Rigid) مذہب ہے جس میں ارتقا (Revolution) کی قطعاً گنجائش نہیں ۔ جو کچھ اس وقت شریعت کے نام پر رائج ہے اور جس کا علمبردار خود مُلاّ کا طبقہ ہے، اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں دی جاسکتی۔‘‘[1] علماے کرام کا یہ نظریہ ہے یا نہیں ؟ فی الحال اسے نظر انداز کیجئے اور یہ دیکھئے کہ مغرب کے ان غلام فطرت ’دانشوروں ‘ کا نظریہ کیا ہے؟ یہ لوگ جب اسلام کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ،تو ارتقا کا لفظ بکثرت استعمال کرتے ہیں لیکن عملاً ان کا رویہ ارتقا (Revolution) کا نہیں ، بلکہ اختراع (Innovation) کا رویہ ہوتا ہے۔ نام ’تصریف آیات‘ کا لیا جاتا ہے، لیکن عمل ’تحریف ِآیات‘ کا ہوتا ہے۔ زبانی جمع و خرچ کی حد تک ذکر ’تفسیر قرآن‘ کا کیا جاتا ہے لیکن عمل کی دنیا میں ’تغییر قرآن‘ کا دم بھرا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک اسلام اور قرآن کسی ٹھوس حقیقت کا نام نہیں ہے، بلکہ کسی شئ سیال کا نام ہے، جسے اگر جگ میں ڈالا جائے تو جگ کا روپ دھار لے، گلاس میں ڈالا جائے تو گلاس کی شکل اختیار کرلے، لوٹے میں ڈالا جائے تو لوٹا بن جائے۔ ظاہر ہے کہ یہاں ہر بدلتی ہوئی شکل، پہلی شکل کا ارتقا نہیں ہے، بلکہ از سر نو شکل ِغیر کا اختراع ہے۔ لیکن لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے، ہر بدلتی ہوئی شکل پر’ارتقا‘ کا لفظ چسپاں کردیا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پرویز صاحب، آدم کے خلیفۃ اللہ ہونے کے قائل، اور اُن کی خلافت و نیابت ِالٰہی پراٰمنا وصدقنا کہا کرتے تھے، لیکن بعد میں اس حقیقت کے انکار پراُتر آئے، ظاہر ہے کہ ’خلافت و نیابت ِالٰہیہ‘ کے اقرار کے بعد انکار کی روش ’ارتقا‘(Revolution) نہیں ، بلکہ متضاد اختراع (Contradictory Innovation) ہے لیکن طلوع اسلام اسے پرویز صاحب کی فکر کا ایک ’ارتقائی مرحلہ‘ قرار دیتا