کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 204
اُنہیں اس قسم کی تعریفی اسناد سے نوازتا ہے کہ__ ’’ پرویز صاحب اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے فعال اسلامی ریفارمر ہیں ۔‘‘
(دیکھئے طلوعِ اسلام: نومبر ۱۹۷۶ء، ص۵۸)
6. ’’ ہم اتنا عرض کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ قرآن کو مروّ جہ ترجموں (بلکہ تفسیروں ) کے ساتھ پڑھ لینے سے قرآن سمجھ میں نہیں آسکتا، اگر اس طرح قرآن سمجھ میں آسکتا ہوتا تو ہمارے ’علماے کرام‘ سے بڑھ کر قرآن سمجھنے والا اور کون ہوسکتا تھا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات قرآن سے قطعاً نابلد ہوتے ہیں ۔ اور جس چیز کو وہ قرآن کہہ کر پیش کرتے ہیں ، اس میں قرآن کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔‘‘[1]
جی ہاں ! قرآن بھلا ترجموں اور تفسیروں سے کب سمجھ میں آسکتا ہے؟ پھر بھلا قرآن کو سمجھنے کے لئے ’قرآن‘ کی ضرورت بھی کیا ہوسکتی ہے؟ قرآن کو صحیح معنوں میں ، اُن لوگوں نے سمجھا ہے جو قرآن کو ماننا تورہا ایک طرف، جانتے تک نہیں ہیں ۔ اگر آپ بھی قرآن سمجھنا چاہتے ہیں تو ’ترجموں اور تفسیروں ‘ کو گلدستہ طاقِ نسیان بنا کر__ بلکہ خود قرآن کو بھی بالاے طاق رکھ کر__ دانشورانِ مغرب کی قدم بوسی کیجئے۔ آخر چارلس ڈارون نے جونظریۂ ارتقا پیش کیا ہے، وہ ’قرآنی نظریہ‘ ہی تو ہے، جسے اُس نے بغیر کسی قرآن کے پیش کیا ہے اور پھر ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کو بڑی جانگسل مشقتوں اور عرق ریزیوں کے ساتھ نظریۂ ارتقا کے اس چوہے کو جبل قرآن سے کھود کر نکالنا پڑا اور پھر اشتراکیت کا یہ معاشی نظام جسے کارل مارکس جیسے سکہ بند یہودی نے بغیر کسی قرآن کے پیش کیا ہے، ’’قرآن ہی کا تو معاشی نظام‘‘ ہے جسے پرویز صاحب نے اپنے ’’دل کی پوشیدہ بیتابیوں ‘‘ اور اپنے ’’دیدۂ تر کی بے خوابیوں ‘‘ کے ساتھ’نظامِ ربوبیت‘ کا نقاب اوڑھا کر پیش کیا ہے اور پھر مغربی معاشرت کا پورا نقشہ (جس کے اہم اجزا : مخلوط سوسائٹی، مخلوط تعلیم، ترکِ حجاب و نقاب، مرد و زن کی مطلق اور کامل مساوات بلکہ اب اس سے بھی آگے بڑھ کر نظریۂ افضلیت ِاُناث، تعددِ ازواج کی مخالفت وغیرہ ہیں ۔یہ سب کچھ)اہل مغرب نے بغیر کسی قرآن ہی کے تو پایا ہے۔جسے بعد میں ہمارے ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کو اپنی ’’خلو ت و انجمن کے گداز‘‘ اور اپنے ’’نالہ نیم شب کے نیاز‘‘ کے ساتھ قرآنی اسناد فراہم کرنے کی زحمت گوارا کرنی پڑی۔