کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 203
آگیا۔ اُنہوں نے ایک دفعہ لکھا کہ جس طرح سانپوں کی کئی قسمیں ہیں ، اسی طرح مولویوں کی بھی بہت سی قسمیں ہیں ، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ سانپوں میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو زہریلے نہیں ہوتے لیکن مولویوں میں ایسی کوئی قسم نہیں پائی جاتی۔ فطرت کی یہ ستم ظریفی ہے کہ اس قسم کے بے ضرر (بلکہ مفید) سانپ تو ہندوستان میں رہ گئے اور مولوی صاحبان پاکستان میں آگئے تاکہ یہاں کسی کو چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوسکے۔ کیا یہ تقسیم بھی کہیں ’ریڈ کلف‘ صاحب ہی کی نظر عنایت کا نتیجہ نہیں ۔‘‘[1] جی نہیں ! صرف مولوی صاحبان ہی نہیں بلکہ وہ مسٹر بھی یہاں آگئے جو متحدہ ہندوستان میں ایک طرف انگریزوں کے قائم کردہ طاغوتی نظام کی مشینری کا کل پرزہ بن کر ماہانہ راتب وصول کیا کرتے تھے اور کانگرس کے رکن رکین مسٹر پٹیل کی ماتحتی میں کلرکی کا منصب پاکر اس کی تابعداری میں کتے کی ضرب المثل وفاداری سے بھی بڑھ کر وفاداری کا نذرانہ پیش کیا کرتے تھے اور دوسری طرف عین اُسی وقت جبکہ ہندو اور انگریز کے مشترکہ نظامِ طاغوت میں محض ماہانہ مشاہرہ کے عوض یہ وفادارانہ خدمات انجام دی جارہی تھیں ، اُس مسٹر نے جعلی ’مسلمان‘ بنتے ہوئے قلمی ناموں کی نقاب اوڑھ کر ’معارف ہائے قرآن‘ کے دریا بہانے کی مشق بہم پہنچائی۔ ع در کفے جام شریعت، درکفے سندانِ عشق ایسے مسٹر آخر کیوں یہاں آئے؟ صرف اور صرف اس لئے کہ جس طاغوتی نظام کی نمک خواری کے عوض متحدہ ہندوستان میں وہ تنخواہ پایا کرتے تھے، قرآن کا نام لے کر اُسی طاغوتی نظام کو پیش کریں اور جن علماے کرام سے، اس دجل و فریب کی پردہ دری عمل میں آئے، اُنہیں ’مخالف ِقرآن‘ قرار دیا جائے۔ اور یوں اس حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں جس کے فساق و فجار کارپردازوں کی نشوونما اور پرورش و تربیت مغربی نظریات کا دودھ پی پی کر ہوئی ہے۔ لیکن پھر اپنی اس حرکت پر پردہ ڈالتے ہوئے اُلٹا پراپیگنڈہ یہ کیا جائے کہ ’’مذہبی پیشوائیت کا اربابِ اقتدار کے ساتھ ہمیشہ سانجھا پن اور گٹھ جوڑ رہا ہے۔‘‘ اس طرزِ عمل سے ایک طرف ارباب اقتدار بھی پرویز صاحب سے خوش رہتے ہیں اوردوسری طرف علما کی مخالفت کے باعث عالم کفر بھی اُن سے شاداں و فرحاں رہتا ہے اور