کتاب: محدث شمارہ 297 - صفحہ 202
ساری قابلیتیں صرف ’مُـلَّا‘ ہی کے خلاف استعمال ہوتی ہیں ۔ اربابِ اقتدار اُن کی چشم پوشی کے صدقے صاف بچ نکلتے ہیں ، بلکہ احیاناً ،وہ قابل تعریف بھی قرار پاتے ہیں ، بالخصوص جبکہ وہ علما کی مخالفت پراتر آئیں ، اس وقت یہ فاسق و فاجر حکمران بھی پرویز صاحب کی حمدو ستائش کے مستحق بن جاتے ہیں ۔ 4. ’’مولوی صاحبان کی طرف سے ہر اس تحریک کی مخالفت ہوگی جو مسلمانوں کو قرآن کی طرف دعوت دے، اس بنا پر ان کی طرف سے طلوعِ اسلام کی مخالفت بھی ضروری تھی۔ یہ حضرات طلوعِ اسلام کے پیش کردہ قرآنی دلائل کا جواب تو دے نہیں سکتے، اس لئے اُنہوں نے اس کے خلاف وہی حربہ پیش کیا ہے جسے یہ اپنے مخالفین کے لئے شروع سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اُنہوں نے مشہور کردیا کہ طلوعِ اسلام منکر ِحدیث ہے۔‘‘[1] یہاں ’مفکر ِقرآن ‘ کی ذ ہنی خیانت اور خوے الزام بازی کو ملاحظہ فرمائیے کہ ’’علماء کرام اُن کے قرآن کی مخالفت کرتے ہیں ۔‘‘حالانکہ وہ قرآن کے نہیں بلکہ قرآن کے نام کی آڑ میں پیش کئے جانے والے اُس نظام کے مخالف ہیں جسے پرویز صاحب نے مغربی معاشرت کے طور طریقوں کو، اس اشتراکی نظامِ معیشت کے ساتھ ملا کر پیش کیاہے جس پر اُنہوں نے قرآنی ٹھپہ لگا دیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ’مخالفت ِقرآن‘ اور چیز ہے اور ’منسوب الیٰ القرآن تصور کی مخالفت‘ شے دیگر ہے۔ لیکن ’مفکر ِقرآن‘ صاحب ہمیشہ خلط ِمبحث سے کام لے کر قرآن کے نام پر گھڑے ہوئے اپنے ہرتصور کو بجائے خود’قرآنی تصور‘ قرار دیا کرتے تھے۔ اور جن علماے کرام کی طرف سے ان کے اس خود ساختہ تصور کی مخالفت ہوا کرتی تھی، اُنہیں وہ براہِ راست’قرآن کا مخالف‘ کہا کرتے تھے۔ 5. ’’سانپ اور مولوی : ٹائمز آف انڈیا میں ایک خبر چھپی ہے کہ جب گاندھی جی کے آشرم میں بہت سے چوہے پیدا ہوگئے، جو ان کے کاغذوں کو خراب کرتے تھے تو اُنہوں نے پونہ کے ایک ڈاکٹر سے ایسے سانپ منگائے جو چوہوں کو کھا جاتے ہیں لیکن انسانوں کے لئے بالکل بے ضرر تھے کیونکہ ان میں زہر نہیں تھا (چنانچہ اس ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اس کے پاس اب بھی اس قسم کے کئی سانپ موجود ہیں )۔ اس سے ہمیں نیاز فتح پوری کا ایک لطیفہ یاد